منگل، 29 جون، 2021

حقوق العباد اور حسن معاشرت کی اہمیت

 حقوق العباد اور حسن معاشرت کی اہمیت

اسلام کی عمارت کئی اصولو ں پر استوار ہے جس میں سے ایک اہم ستون معاشرت ہے۔ اسلام میں اس پر تاکید کی گئی ہے اور اس کی وجہ سے اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے اور معاشرت کا تعلق بھی حقوق العباد سے ہے۔ معاشرت کی اگر جامع مانع تعریف کی جائے تو کچھ اس طرح بنتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں رشتہ داروں سے حس سلوک ہو اپنے ساتھ کے لوگوں کے مزاج اور عادت کے مطابق برتائو کیا جائے، اور ہر ایک سے نباہ کرنے کے طریقے معلوم کرکے ان پر عمل پیرا ہوا جائے۔

آج ہماری صورتحال اس کے برعکس ہے۔ معاشرت کی درج بالا تعریف کے مطابق شاذ ونادر ہی اس پر کوئی عمل پیرا ہوگا۔ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا ہم سب کا اولین فریضہ سمجھا جاتاہے۔ دوسروں کے حقوق کی پامالی اور زبردستی ہر چیز پر اپنا حق جتانا بہادری کی علامت سمجھا جاتاہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلمیات سے ناواقف وغافل ہیں۔

آئے روز طلاقوں کی بڑھتی شرح پریشان کن ہے اور اس کا محرک بھی حقوق کی پامالی اور اپنے حقوق کے حصول کی کوشش ہے۔ والدین کو اگر دیکھا جائے تو وہ بھی اپنی اولاد کی تربیت سے غٖافل ہیں۔ والدین کو اگر کوئی فکر لاحق ہے تو وہ بس اتنی کہ بچوں کا مستقبل سنور جائے، وہ دنیامیں کسی کے محتاج نہ رہیں، اچھی تعلیم حاصل کرلیں اچھی سی نوکری یا اچھا کاروبار شروع کرلیں۔

والدین کو یہ فکر نہیں کہ ہمارے بچے معاشرت کیسےسیکھیں، لوگوں سے سلوک کیسے رکھیں۔ معاشرت انتہائی اہم ہے اس وجہ سے قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اس پر زور دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کےگھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو۔ اس طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہے جب تمہیں کہا جائے مجالس میں کشادگی پیدا کرو، تو مجالس میں وسعت اور کشادگی پیدا کرو۔ یہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ دوسروں کا حقوق کا خیال کتنا ضروری ہے۔ مجلس میں کشادگی اور دوسروں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانا جب اتنا اہم ہے تو اندازہ کیا جاسکتاہے کہ دوسروں کے ضروری حقوق کا خیال رکھنا کتنا اہم ہوگا۔

ایک حدیث مبارکہ ہے کہ مہمان کو چاہیے میزبان کے پاس اتنا قیام کرے کہ وہ تنگ نہ ہوجائے۔ اس حدیث میں مہمان کو میزبان کا خیال رکھنے کا امر کیا گیا ہے۔ مریض کی عیادت اچھی بات ہے لیکن اسلام یہاں بھی زور دیتا ہے کہ مریض کے پاس زیادہ نہ بیٹھا جائے تاکہ وہ تنگ دل نہ ہو۔ صرف دل پر بوجھ اور تنگی کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ مریض کے پاس زیدہ دیر بیٹھنے کو منع کیا گیا۔

درج بالا آیات واحادیث ہمیں واضح پیغام دیتی ہیں ک جس طرح وقت پر عبادت کرنا اہم ہے، اس طرح اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔ درس نظامی کی فقہ کی کتابوں میں عبادات کا حصہ ایک چوتھائی ہے، جبکہ معاملات تقریبا تین حصوں میں بیان کیے گئے جس سے معاشرت اور حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتاہے۔ اللہ تعالی ہمیں حقوق العباد کی رعایت کی توفیق عطافرمائے۔ 

پیر، 28 جون، 2021

والدین کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟ اطاعت کن باتوں میں کرنی چاہیے

 والدین کی قدر کیجئے

قدرت نے انسان کو والدین کی شکل میں وہ انمول تحفہ اور عظیم نعمت عطاکی ہے جس کا اس دنیا میں کوئی ثانی اور کوئی نعم البدل نہیں۔ دیگر رشتہ دار جتنے بھی خیر خواہ ہوجائیں والدین کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ والدین کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اگر آپ کی خیرخواہی کرتاہے تو ہوسکتا ہے اس کاکوئی مفاد وابستہ ہو۔ لیکن والدین ایسی شخصیت ہوتے ہیں جو بلاغرض وبلامطلب اپنے بچوں پر جان بھی قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں اور بدلے میں کچھ بھی نہیں چاہتے۔

اسلام میں والدین کی عظمت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، جگہ جگہ والدین کی خدمت اور اطاعت کی تلقین کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین کی جتنی بھی خدمت کی جائے کم ہے۔ والدین کا حق اس دنیا میں ادا ہونا ممکن نہیں۔ کم از کم اتنا تو ہوسکتا ہے کہ بچے اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کریں، ان سے نرمی سے پیش آئیں، ان کی راحت کا خیال کریں۔

والدین اگر سخت بات کریں تو اس کے پیچھے اپنی بچوں کی خیرخواہی مضمر ہوتی ہے، لہذا ان کی کڑوی کسیلی باتوں کا جواب ہمیشہ نرمی سے دیں۔ وہ اگر بات کررہے ہوں تو ان کی باتوں کو کاٹنا بے ادبی ہے۔ والدین کےسامنے موبائل فون کااستعمال بھی بے تہذیبی ہے۔ وہ اگر آپ سے بات کررہے ہیں تو ان کے سامنے کال کرنا یا کال سننا بھی مناسب نہیں۔

ماں اور باپ کی عزت یکساں کرنی چاہیے لیکن چند امور ایسے ہیں جن میں والدہ کا مقام ومرتبہ باپ سے زیادہ ہوتاہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے ایک صحابی نے دریافت کیا میرے حسن سلوک سب سے زیادہ مستحق کون ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس صحابی نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون، فرمایا تمہارا باپ۔ اس سے معلوم ہوا خدمت میں استحقاق ماں کا زیادہ ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہے اور دیکھ بھال کی زیادہ محتاج ہوتی ہے۔

 ہاں ادب میں اور عزت واحترام میں باپ کا مقام ومرتبہ اعلی ہے کیونکہ باپ سے اس قدر انسان بے تکلف نہیں ہوتا جتنا ماں سے ہوتاہے۔ لہذا ادب کا لحاظ بھی باپ کے لیے زیادہ ہونا چاہیے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز اور نیکی کے کاموں میں ہے۔ خدانخواستہ اگر وہ گناہ کا حکم کریں، چوری یا کسی کی حق تلفی کا حکم کریں تو اس سلسلے میں ان سے معذرت کرلینی چاہیے اور ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ ارشاد ہے لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ قرآن پاک کی رو سے معلوم ہوتاہے کہ والدین اگر غیر مسلم ہوں توشرک اور کفر میں ان کی بات ہرگز نہ مانی جائے، البتہ دنیاوی معاملات میں ان سے حسن سلوک اب بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو والدین کا فرمانبردار بنائے

ہفتہ، 26 جون، 2021

نوجوان نسل کی بے راہ روی کے اسباب اور ان کا علاج

 نوجوان نسل کے براہ روی کے اسباب

کسی بھی سماج اور معاشرے میں نوجوان اہم ہوتے ہیں اور ان کو ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتاہے۔ قوم وملک کی فلاح وبہبود میں نوجوان نسل کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ عمررسیدہ اور بچوں کی نسبت نوجوان نسل کاوجود اہمیت رکھتا ہے۔ یہی نوجوان اگر اپنا کردار نبھانے کے بجائے لایعنی کاموں میں مشغول ہوجائیں یا خواب غفلت کا شکار ہوجائیں تو قوم ترقی کے بجائے زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

سماج میں اصلاح اور نیکی کے بجائے برائی کی جڑیں پھیلنے لگتی ہیں بے حیائی اور فحاشی اپنا راستہ نکال لیتی ہے اور زندگی اجیرن سی ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں کوئی تخیلاتی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں کھلی آنکھوں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مغربی ممالک کو دیکھ لیجئے، وہاں اخلاقی پستی کا اگر دور دورہ ہے تو نوجوانوں کی بدولت ہی ہے۔

شہوت پسند لوگ بجائے اس کے کہ کوئی مثبت اور تعمیری کام کریں، اسی ہوس پرستی کی تکمیل کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کا یہی مقصد ہے کہ نوجوان نسل تخریبی کاموں میں ملوث ہوجائے۔ آج کل جبکہ انٹرنیٹ عام ہے، تخریبی ذہن کے لوگوں کا کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو مائوف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا جہاں علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور علم میں اضافے کا ایک بہترین سبب ہے وہاں بے راہ روی اور اباحت پسندی کو کافی حد تک پروان چڑھا رہا ہے۔

بے جا لہوولعب اور فضول خرچی کا ایک اہم سامان ہے۔ ایسے حالات میں والدین اور خود نوجوان نسل کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقل بروئے کار لا کر خود کو سنبھالیں۔ ہر جگہ سے صدائے حق بلند ہوگی تو ہم سوشل میڈیا کے سائڈ افیکٹس کا بخوبی مقابلہ کرسکیں گے۔ انٹرنیٹ کا استعمال ضروری ہے لیکن اس کی حدوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ دو دھاری تلوار ہیں جن سے بیک وقت فائدہ بھی اٹھایا جاسکتاہے اور یہ غیر معمولی نقصان کا بھی باعث ہیں۔

اصلاح پسند حضرات اور دیندار رہنمائوں کا فرض ہے کہ خاموشی کے بجائے نوجوانوں کی تربیت کریں۔ زبان وبیان ہو یاقلم ہو، ہر پلیٹ فارم سے اور ہر ذریعہ سے نوجوانوں کی اصلاح ضروری ہے تاکہ وہ بے راہ روی کی دلدل سے نکل سکیں ۔

بے راہ روی کا سبب جہاں سوشل میڈیا ہے وہاں کچھ وڈیو گیمز بھی ہیں جو عریانیت کو پروان چڑھا رہے ہیں نیز ان میں غیر اسلامی شقیں بھی وافر مقدار میں ہیں جوکہ ایک مسلمان کے ایمان کے منافی ہیں۔ یہ ایک شاطرانہ چال ہے جو کہ حیرت انگیز طور پر مسلمان نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور وہ لاشعوری طور پر اس کا شکار ہورہے ہیں۔

یہ بے حسی ہے کہ اپنے سامنے اس طرح کی خرافات ہوتے ہوئے ہم سب خاموش ہوجاتے ہیں اور اپنے حصے کا فرض ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے خیرالناس من ینفع الناس۔ بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ اس حدیث کی رو سے ہم سب کا فرض ہے لوگوں کی بہتری کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں،اللہ تعالی ہماری نوجوان نسل کو خیر کے کاموں کی توفیق عطافرمائے۔ 

جمعہ، 25 جون، 2021

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ اسباب اور بچنے کا طریقہ

 لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں

خود کشی کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر وبیشتر ہمارے کانوں میں پڑتا رہتاہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ہمارے عزیزوں، رشتہ داروں، اور دوستوں میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتاہے جو زندگی میں ایک دوبار خودکشی کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔

خوش قسمتی سے ایسی کوشش کرنے والے کبھی بچ جاتے ہیں لیکن اکثریت اس کوشش میں کامیاب ہوجاتی ہے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ہر جان سے جانے والا اپنے پیچھے یہ سوال ذھنوں میں چھوڑ جاتاہے کہ آخر اس نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا۔ لواحقین توجیتے جی مرجاتے ہیں، لیکن دوسرے لوگ تبصروں اور تجزیوں میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں کہ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک جیتا جاگتا انسان یوں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کیا وہ زندگی سے مایوس ہوچکا تھا؟ کیا اس کے سامنے زندہ رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں بچی تھی؟

خودکشی کرنے والے صرف غریب ونادار ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں زندگی کی تمام رعنائیاں اور آسائشیں میسر ہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خود کشی سے جو غریب اور ناداری کا تعلق جوڑا جاتا ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ ضروری نہیں انسان تنگدستی کے ہاتھوں یہ انتہائی اقدام اٹھائے۔ زیادہ تر قیاس آرائیاں یہی کی جاتی ہیں کہ مرنے والے کوکوئی خاص مصیبت یا پریشانی لاحق تھی، اور وہ دوسروں کو بتانا بھی نہیں چاہتا تھا لہذا اس نے پریشانی سے بچنے کے لیے یہ حل نکالا۔ حالانکہ محققین خود کشی کے اس سبب کو کلی طور پر ماننے  لیے تیار نہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا تیس کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، اور ڈپریشن بھی اقدام خودکسی کا ایک اہم محرک ثابت ہوا ہے۔ اس وقت دنیا میں آٹھ سے دس لاکھ افراد ہر سال خود کشی کرتے ہیں اور اکثر خودکشی سے قبل اس فیصلے سے آگاہ بھی نہیں کرتے تاکہ سدباب کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔ منجلہ دیگر وجوہات کے کچھ سیاسی اور معاشی حالات بھی انسان کو خود کشی پر مجبور کرتے ہیں۔

خود کشی کے واقعات کی گہرائی میں جائیں تو ایک چیز واضح نظر آتی ہے کہ ہم لوگوں میں برداشت کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ معمولی سی رنجش ہوجائے یا اپنا مطالبہ پورا نہ ہوپائے تو ہم زندگی کے خاتمے کا سوچنے لگنے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس حوالے سے والدین اور بزرگ اپنے بچوں کی ذہن سازی کریں اور انہیں سمجھائیں کہ اس دنیا میں ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں اور نہ ہرضرورت کی پورا ہونے کی امید لگانی چاہیے۔ اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوکر انسان نفسیاتی مسائل سے بچ سکتاہے جو انسان کو رفتہ رفتہ خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔

اسلام میں خود کشی ممنوع ہے اس کو سنگین جرم اور باعث عذاب قرار دیا گیا ہے۔ انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں ہے لہذا اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا بھی انسان کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ زندگی اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت ہے لہذا زندگی کے احکام میں بھی اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرنی ضروری ہے۔

جمعرات، 24 جون، 2021

تعلیم کی ضرورت واہمیت

 تعلیم کی اہمیت وضرورت
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو انسان کو زندگی کی راہ متعین کرنے کا سلیقہ بتاتی ہے۔ تعلیم سے انسان کے لیے نئی راہیں روشن ہوجاتی ہیں جس سے اس کی زندگی آسان تر ہوجاتی ہے۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔ بقول شخصے، مال ودولت کی حفاظت تم خود کرتے ہو لیکن علم تمہاری حفاظت خود کرتاہے۔ علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ غزوہ بدر کے مشرک قیدیوں کے بارے میں یہ حکم ہوا کہ غیر پڑھے لکھے اور نادار قیدیوں کو ویسے چھوڑ دیا جائے لیکن ان میں سے جو پڑھے لکھے ہیں وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں تب ان کو رہائی ملے گی۔

جنوبی افریقہ میں ایک یونیورسٹی کے باہر ایک فکر انگیز جملہ لکھا تھا کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم اور دور تک مارکرنے والے میزائلوں کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کا نظام تعلیم خراب کردو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تعلیمی حالت کی ابتری اور بہتری قوم کا مستقبل طے کرتی ہے۔ کسی قوم کے تباہ ہونے کے لیے اس بات کا بڑا دخل ہے کہ اس کے نوجوانوں کو امتحانات میں نقل لگانے کی اجازت دے دی جائے۔

نظام تعلیم ناکارہ ہوگا تو ایسے ڈاکٹر پیدا ہوتے رہیں گے جن کے ہاتھوں لاچار مریضوں کی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔ ناقص تعلیم کے حامل انجینئرز عمارتوں کو تباہ کرتے رہیں گے، معیشت دانوں کے ہاتھوں معیشت کا کباڑہ ہوتا رہے گا۔ غیرمعیاری مذہبی تعلیم دی جائے تو ایسے مذہبی رہنما پیدا ہوتے رہیں گے جو قوم وملت کی رہنمائی کرنے کے بجائےانہیں فرقہ پرستی کی اگے میں جھونکتے رہیں گے۔ انصاف ججوں کے ہاتھوں قتل ہوتا رہے گا۔

اوپر یونیورسٹی کا درج کردہ جملہ بڑا معنی خیز ہے، جو اپنے اندر کئی معانی پوشیدہ رکھتاہے۔ معیاری علم اہم ہے جس کی طرف حضورﷺ کے اس ارشاد میں اشارہ ملتا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علی کلم مسلم۔ علم طلب کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ انسان کے کیا فرائض وواجبات ہیں، یہ جاننے کے لیے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے فرائض کامل طور پر بجالانے کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ انسان اپنے اصل مقام کو تب تک نہیں پہچان سکتا جب  تک کہ صحیح اور مستند علم حاصل نہ کرلے۔

روز قیامت اعمال کا حساب ہوگا، اچھے اعمال کا بدلہ ثواب کی صورت میں اور گناہوں کا بدلہ سزا کی صورت ملے گا۔ اس سب کے لیے ضروری ہے کہ انسان گناہوں اور نیکیوں کی معرفت اور ان کا علم حاصل کرے۔

تعلیم دینی ہو یا دنیاوی، اس کے لیے صحیح طریقہ اور درست نیت ضروری ہے۔ دینی تعلیم کا مقصد رضائے الہی کا حصول ہونا چاہیے، جبکہ دنیاوی تعلیم کا مقصد یہ متعین کیا جاسکتا ہے کہ اس سے معاشرے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جائےگا جس سے معاشرہ صحیح سمت میں اگے بڑھ سکے۔ تعلیم کا مقصد دنیا کا حصول ہرگز نہ ہونا چاہیے کیونکہ اس  سے انسان کی ہوس اور لالچ ظاہر ہوتی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے علم سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچایا جائے خواہ وہ تدریس کی شکل میں ہو، یا طب کا شعبہ ہو۔

بدھ، 23 جون، 2021

اردو زبان کی اہمیت

 قومی زبان کیوں اہم ہے

کسی بھی ملک یا قوم کی دائمی بقاء اس کی قومی زبان میں مضمر ہے اور تاریخ اس کی شاہد ہے۔ تہذیبی پہچان ہو یا ثقافتی، سب قومی زبان کی مرہون منت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں صنعتی، معاشی اور وسماجی ترقی بھی قومی زبان کے پس منظر میں پروان چڑھتی ہے۔ ترقی کا دارومدار زیادہ تر اس پر ہوتاہے۔

دنیا کے جتنے ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کی ترقی کے پیچھے اگر دیکھا جائے تو اس کی قومی زبان کا ہاتھ نظر آئےگا۔ ہر ملک اپنی ہی زبان کو لے آگے بڑھا ہے۔ اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنا سہل ہوتاہے اور ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھنا نسبتا آسان ہوجاتاہے۔ چین جاپان، روس اور جرمنی ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں، جنہوں نے غیروں کی زبان اپنانے کے بجائے اپنی قومی زبان کو فروغ دیا اور آج دنیا کے نقشے پر ایک مانی ہوئی تہذیبیں ہیں۔

قومی زبان ذہنی آزادی کا بھی باعث بنتی ہیں۔ دوسروں کی زبان میں آگے بڑھنے سے انسان پیچھے رہتاہے اور غیروں کی ذہنی غلامی کا اسیر بن کر رہ جاتاہے۔ قومی زبان کے ضمن میں علاقائی زبانیں بھی آجاتی ہیں جن کی اہمیت وافادیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ زبان اللہ تعالی طرف سے ایک بیش بہا نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان اپنا مافی الضمیر واضح کرتاہے، اور یہ سب کچھ قومی زبان کے بعد اپنی علاقائی زبانوں کی مرہون منت ہے۔

دنیا کی دیگر زبانوں کو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ضرورت کے تحت انگریزی اور فارسی سیکھی جاسکتی ہیں، خصوصا جب بیرون ملک روزگار وابستہ ہو یا بیرون ملک سیٹل ہونے کی امید ہو۔ لیکن دوسری زبانیں فقط ضرورت کے تحت سیکھنی چاہییں، ان کو مقصد اول بنانا عقلمندی نہیں۔

دنیا کی دیگر قومیں جب اپنی قومی زبانوں کو رواج دے کر ترقی کرسکتی ہیں، ان کے لیے اپنی زبان ترقی میں رکاوٹ نہیں تو پاکستان میں اردو ترقی کی رکاوٹ کیوں ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔

اردو ایک خاص اہمیت کی حامل زبان ہے۔ پاکستان کو وجود دلانے کے لیے محرک اول اسلام تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ ایک برزور تحریک بن گیا۔ وہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ تحریک پاکستان کے پیچھے اردو بھی ایک عنصر کے طور پر سامنے آئی تھی۔ آج بھی انڈیا میں اردو کو امتیاز کا نشابہ بنایا جاتاہے، صرف اس وجہ سے کہ اس کو مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ تحریک پاکستان میں اہم کردار کی حامل تھی۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر فرمایا دیا اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہوگی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج ہم اردو زبان بولنے اور لکھنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ خود دار اور آزاد قومیں اپنی قومی زبان پر فخر محسوس کرتی ہیں، اپنی اقدار اور اپنی تہذیب کی جان سے زیادہ حفاظت کرتی ہیں۔

دنیا بھر میں قومی زبان اردو بولنے کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ تیزی کے ساتھ اردو ایک انٹرنیشنل زبان کا درجہ حاصل کررہی ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا کی متعدد ممالک میں اردو زبان بولنے والوں کی کثرت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زبان کو اہمیت دیں اور جس قدر ممکن ہو انٹرنیٹ کی دنیا میں اس کو رواج دیں۔ بجائے رومن اردو لکھنے کے اردو رسم الخط میں لکھنے کی عادت ڈالیں۔ اردو زبان میں بلاگ اور ویب سائٹ بنائیں اور اس کو ایک اہم مقام دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ہفتہ، 19 جون، 2021

کرسٹیانو رونالڈو کی حرکت

کرسٹیانو رونالڈو کی حرکت
دنیا میں ہر کھیل کے شیدائی پائے جاتے ہیں لیکن فٹ بال کے شوقین دنیا بھر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ کھیل ہے جس کو پسند کرنے والوں کی تعداد سب  سے زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی لگ بھک سات ارب ہے جس میں تقریبا تین ارب لوگ فٹ بال ہی کو پسند  کرتے ہیں۔

فٹ بال خواہ کھیلنے والوں ہوں یا دیکھنے والے، دونوں کو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور وہ دنیا ومافیہا سے بے خبر اس کھیل میں مشغول رہتے ہیں۔ اس کھیل نے دنیا کو بہت بڑے نام دیے ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی عوام پر اپنا گہرے نقوش چھوڑے ہیں ان میں رونالڈو سرفہرست ہیں۔

آج کی دنیا سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہے جہاں لمحہ بھر میں وہ واقعات پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں جن کا صیغہ راز میں رہنا اور رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ان کو پوشیدہ رکھنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ ان سماجی ابلاغ کے ذرائع نے ہیرو کو زیرواور زیرو کو ہیرو بنانےکی صلاحیت بھی بدرجہ اتم حاصل کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مشہور ہستیاں اس معاملے میں کافی حساس ہوگئی ہیں، اور وہ سوشل میڈیا کی اہمیت کو کسی صورت نظر اندازنہیں کرسکتیں۔

ایک ایسی ہی صورتحال اس وقت پیش آئی جب رونالڈو میڈیا کے نمائندوں سے باتیں کررہے تھے اور مقابلے کے لیے کئی گئی تیاریوں اور اپنی ٹیم کی موجودہ صورتحال سے میڈیا کے نمائندوں کو آگاہ کررہے تھے، اس دوران جب ان کے سامنے کوکا کولا کی بوتل رکھی ہوئی تھی، اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور سادہ پانی کی بوتل اٹھائی اور اپنی زبان میں لفظ پانی کہا۔

رونالڈو کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں، ان کے چاہنے والوں کے لیے ان کی ہر حرکت اور ہر فعل معنی خیز ہوتاہے جس میں ایک مثبت یا منفی سبق پوشیدہ ہوتاہے۔ اس معمولی عمل کی بدولت کوکا کولا کو ہزاروں ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس شخص کا تعلق مذہب سے نہیں ہے، اور نہ ہی کسی عالم دین کا فعل ہے۔ لیکن دنیا بھر جس طرح کا تاثر واقع ہوا ہے وہ خاصہ معنی خیز ہے۔

یوں تو ہم ہزارہا بار سن چکے ہیں کہ ایسے مشروبات انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، خصوصا ہڈیوں کو ان سے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن کون کان دھرتاہے، رونالذو کے اس فعل نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اب ہر کوئی اس پر بات کرتا نظر آتاہے۔ سب اس طرف متوجہ ہوگئے ہیں کہ واقعی یہ سافٹ ڈرنکس انسانی جسم کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔ رونالذو کے اس فعل سے جہاں اس قسم کے مشروبات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے وہاں اس شخصیت کی انسانی ہمدردی والی جہت بھی نمایاں ہوئی ہے کہ وہ کیسے بنی نوع انسان کو غیر صحت مندانہ غذائوں اور مشروبات سے روک رہے ہیں۔ حتی کہ انہوں نے ایک مرتبہ تو یہ تک کہہ دیا کہ میں اپنے بیٹے پر کبھی کبھی اس لیے غصہ کرتا ہوں کہ وہ کوکا کولا اور فانٹا پیتا ہے۔

علاوہ ازیں وہ فلاحی کاموں کے لیے بھی مشہور ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور شام کے بچوں کے لیے انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ رونالڈو کے ان افعال کی وجہ سے ان کے مخالفین بھی بڑھ گئے ہونگے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ عافیت کا معاملہ فرمائے اور دنیا کی تمام تکالیف سے نجات عطافرمائے۔

جمعرات، 17 جون، 2021

چین کی خلائی شعبہ میں ترقی

 چین کی خلائی شعبہ میں ترقی
حالیہ عرصہ میں چین نے معاشی شعبہ میں بے تحاشہ ترقی کی ہے اور کئی ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ملک میں معیشت کے روشن پہلو نمودار ہوئے ہیں اور مادی خوشحالی کی تیزرفتاری کے سبب عام آدمی کے لیے روزگار کے کئی راستے کھل گئے ہیں۔

صرف معیشت نہیں بلکہ زندگی کے کئی شعبوں میں چین نے ایک رہنما ملک کی حیثیت حاصل کرلی ہے، جن میں سائنس، انفارمیشن، اور مواصلات سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ خلائی شعبہ میں بھی چین کی ترقی قابل ذکر ہے، وہ اس سمت میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔

حالیہ دنوں میں چین کی طرف  سے چار نئے سٹیلائٹ بھیجے گئے ہیں۔ ماحولیاتی نگرانی اور آفات سے حفاظت کے سلسلے میں چین کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ ایک مخصوص سٹیلائٹ صرف اسلیے لانچ کیا گیا ہے تاکہ طلباء کی تعلیم وتربیت میں مدد مل سکے۔

چین کاایک مریخ کے حوالے سے بھی تحقیقی مشن موجود ہے۔ یہ جدت کے حوالے سے اور خودانحصاری کے پہلو سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کی بدولت چین کو براہ راست مریخ کے بارے میں معلومات حاصل ہورہی ہیں، اور وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ماتحت نہیں رہا ہے۔ چین کامیابی سے مریخ  کےمدار میں داخل ہوگیا ہے، اور وہاں کے ممکنہ اہداف کامیابی سے حاصل کرلیے ہیں، اور وہاں پر اپنی موجودگی کے تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ ان تصاویر میں دکھا یا گیا ہے کہ لینڈنگ کیسے ہوئی اور مریخ کے جغرافیائی حالات کیسے ہیں۔

چین ان ممالک میں شامل ہے جن کی مریخ پر لینڈنگ کامیابی سے ہوئی ہے، ورنہ 1986 سے یہ کوششیں جاری ہیں، اور اب تک تقریبا چالیس سے زائد خلائی جہاز اس مقصد کے لیے لانچ کیے گئے ہیں، جن میں نصف کے قریب کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب تک صرف آٹھ خلائی جہاز مریخ پر لینڈ  کرپائے ہیں، جن میں چین کا خلائی مشن بھی شامل ہے۔ ویسے تو مریخ کی طرف پیش قدمی ایک کٹھن مرحلہ ہے لیکن سات منٹ کا وہ مرحلہ بہت مشہور ہے جو سب سے زیادہ چیلنج شمار کیا جاتاہے۔

زمین پر جہاز کی لینڈنگ آسان ہے، کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ سطح زمین ہرقسم کے جہازوں کے لیے کافی سازگار ہے۔ اس کے برعکس مریخ کی سطح انتہائی باریک ہے، وہاں لینڈنگ اس قدر آسانی سے نہیں ہوسکتی۔

علاوہ ازیں مریخ کا شدید موسم بھی اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس چین خلا میں اپنی اجارہ داری نہیں چاہتا۔ وہ باہمی تعاون کے اصول پر کارفرما ہے اور کھلے دل سے دیگر ممالک کے اشتراک کوقبول کرتاہے تاکہ بلاتفریق سارے بنی نوع انسان جدید ٹیکنالوجی سےمستفید ہوسکیں۔ چین نے جو خلابازی میں ترقی کی ہے اور کررہا ہے، اس کے ثمرات وہ ساری دنیا تک پہنچانا چاہتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چین نے خلائی شعبہ میں پاکستان سے بھی تعاون جاری رکھا ہوا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں بھی پاکستان کو چین کی جانب سے اس ضمن میں کافی فوائد وثمرات حاصل ہونگے۔

بدھ، 16 جون، 2021

شجرکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمہ داریاں

 شجرکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمہ داریاں
اللہ تعالی کی بے شمار نعمتیں ہم پر ہر روز ہوتی ہیں لیکن ہم ان کا حق ادا نہیں کرتے۔ ان نعمتوں سے ہم خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ان نعمتوں کو کس طرح باقی رکھنا ہے اور کس طرح ان کے مستفید ہونے کے لیے کردار ادا کرنا ہے، ہم اس بات سے یکسر ٖغافل ہیں۔

ہم بحیثیت معاشرہ اندر سے کھوکھلے اور بیمار ہوچکے ہیں، لیکن ہم ادراک نہیں کرپارہے کہ اس کا ایک بڑا سبب فضائی آلودگی ہے۔ آکسیجن کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے جس کی وجہ سے اس کائنات انسانی کی بقاء ہے لیکن ہم درختوں کی اہمیت سے انجان ہیں جو آکسیجن پیدا کرنے کااہم ذریعہ ہیں۔ درخت ہمیں نہ صرف آکسیجن چھانٹ کردیتے ہیں بلکہ سخت گرمی میں ہمیں ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ماحول کو درست رکھنے کے لیے کوڑا باہر پھینکنا بھی فضا کو متعفن کردیتا ہے۔ ایک مہذب معاشرہ ہمیشہ  اس چیز کا خیال رکھتا ہے۔ گاڑیاں جو بے تحاشہ دھواں نکالتیں ہیں ماحول کوزہریلا بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

حکومتی سطح پر شاپنگ بیگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور مختلف اشتہارات کے ذریعہ اس کی روک تھام کی طرف توجہ بھی دلائی جاتی ہے۔ تاہم جب تک معاشرے کے افراد اس کی طرف توجہ نہ دیں گے، اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ پٹرول، ذیزل، اور زرعی سپرے میں کمی کی ضرورت ہے، ماحول کو پاک صاف رکھنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کرنے کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہم اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، اس طرح ہمیں قرب وجوار کی درختوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ درخت کاٹنے والوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے تاکہ ماحول زیادہ سے زیادہ پرسکون رہ سکے۔

درختوں کی آبیاری کو ہمیں اپنا قومی فریضہ سمجھنا چاہیے، اپنے بزرگوں اور اپنےوالدین کے نام پودے لگانے چاہییں، اساتذہ اور ائمہ مساجد کی عوام تک براہ راست رسائی ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ عوام میں اس حوالے سے بیداری پیدا کریں اور ان کو زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دیں۔ گلوبل وارمنگ کا ہر طرف چرچا ہے اور اس خطرے کو بروقت بھانپ لینا ہی دانش مندی ہے۔ درختوں کی کمی اور پھر ناپیدی سے زیرزمین پانی کا اندیشہ منڈلا رہا ہے۔ اس طرح پینے کے صاف پانی کی کمی بھی اسی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہے، جس کی وجہ سے نوع انسانی کی بقاء بھی خطرے میں پڑگئ ہے۔

اگر جنگلات کو یوں بے رحمی سے کاٹا جاتا رہا تو 2080 تک شاید ہمیں سدا بہار درختوں سے محروم ہونا پڑے۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق روئے زمین پر پھیلا جنگلات کا ایک وسیع علاقہ بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے اور وہاں رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ اس  کے نتیجہ میں سیلاب طوفان اور دیگر آفات مسلسل روئے زمین کو اپنی لیپٹ میں لے رہی ہیں۔
بحیثیت قوم ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے محلے، شہر، اور علاقے سے شجرکاری کا آغاز کریں اور اپنے حلقہ اثر تک اس کی اہمیت اجاگر کریں تاکہ نوع انسانی کو درپیش خطرات کا بروقت سدباب کیا جاسکے۔

ہفتہ، 12 جون، 2021

فاسٹ فوڈ کے نقصانات اور حقائق

 فاسٹ فوڈ کے بارے میں چند حقائق
ہرانسان کی قدرتی ضرورت ایسی غذائیت ہے جو صحت بخش بھی ہو اور مضر اثرات سے پاک بھی ہو۔ فاسٹ فوڈ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ جہاں بھرپورلذت کا حصول ہے وہاں وقت کی بچت اور اس کا سہل الحصول ہونا بھی ایک اہم وجہ ہے۔ لیکن اس میں غذائیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بے شمار کیلوریز اور چربی کی موجودگی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

 فاسٹ فوڈز میں بہت سے کھانے شامل ہیں جن میں پیزا، سینڈوچ، چپس اور برگر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ چند مشروبات بھی ایسے ہیں جن کو فاسٹ فوڈ میں شمار کیاجاتاہے۔ فاسٹ فوڈز میں بے تحاشہ چینی کا استعمال ہوتاہے جو کہ ایک مریض کے لیے تو مضر ہے ہی، صحت کے مسائل سے محفوظ لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

 ایک عام برگر میں دس گرام چینی ہوتی ہے جو کہ ذیابیطس اور دیگر امراض کے بڑھانے کے سبب ہے۔ فاسٹ فوڈ چونکہ بہت زیادہ چربی پر بھی مشتمل ہوتاہے اس لیے یہ موٹاپے کا سبب بھی بنتا ہے، کیونکہ موٹاپے کا سیدھا سادھا مطلب چربی کی زیادتی ہے۔ فاسٹ فوڈ کے عادی افراد سبزیوں اور پھلوں کو پسند نہیں کرتے، حالانکہ پھل اور سبزیاں وزن گھٹانے میں مفید ثابت ہوئی ہیں۔اس طرح فاسٹ فوڈ کو پسند کرنے والے خود بخود موٹاپے کی طرف چلے جاتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دل کی بیماریوں میں وہی لوگ اکثر مبتلا ہوتے ہیں جو فاسٹ فوڈ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ چار ہفتوں سے زیادہ فاسٹ فوڈ کھانے والے افراد میں امراض قلب کی شرح کافی بڑھ جاتی ہے۔ یہ چیز خون کی شریانوں کو تنگ اور سخت بناتی ہے جس سے دوران خون متاثر ہوتا ہے اور اس طرح انسان دل کے امراض میں مبتلا ہوتا چلا جاتاہے۔ یہ ناقص طرز زندگی کا آئینہ دار ہے کیونکہ اس کا منشاء تن آسانی ہے۔

فاسٹ فوڈ نے خاندانی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ پہلے لوگ دوپہر اور شام کا کھانا اکٹھا کھاتے تھے اس طرح باہمی رابطہ رہتا تھا۔ اب مصروف زندگی میں ہر کوئی اپنے گھر پر فاسٹ فوڈ منگوالیتا ہے اور خاندان کے افراد سے کٹ کر رہتاہے، جو کہ ایک خوبصورت خاندانی نظام کے لیے انتہائی مضر ہے۔

فاسٹ فوڈ کی تیاری بھی کچھ قابل رشک نہیں ہے۔ ماحول اور اجزاء جو اس کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں، انتہائی مضر صحت ہیں۔ ایسے کھا نے استعمال کرنے سے پیٹ کی خرابی کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھوک کی کمی بھی اس کے سبب سے پید ہوسکتی ہے۔ فاسٹ فوڈ جسم کے لیے ضروری غذائیت فراہم نہیں کرتا۔ اس کے برعکس گھر پر تیار کیا گیا کھانا صحت بخش ہوسکتا ہے اور اس میں اپنی مرضی کے غذائیت والے اجزاء بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ لہذا اطباء تجویز کرتے ہیں کہ باہر سے فاسٹ فوڈ منگوانے کے بجائےگھویلو تیارشدہ کھانوں کو ترجیح دی جائے۔

جمعہ، 11 جون، 2021

صبح سویرے ورزش کی اہمیت اور مسلسل بیٹھنے رہنے کے نقصان

صبح سویرے ورزش کی اہمیت اور مسلسل بیٹھنے رہنے کے نقصان
ہر کوئی صحت مند رہنا چاہتا ہے اور ایسے رازوں کی تلاش میں رہتا ہے جس سے روز مرہ زندگی معمول کے مطابق رہے اور انسان بیماریوں اور عوارض سے محفوظ رہے۔ ورزش اس سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت ورزش کی جاسکتی ہے لیکن سب سے مفید وقت صبح سویرے کا ہی ہے جب جسم کے تمام اعضاء پرسکون ہوتے ہیں، اور چونکہ ناشتہ اور کھانا نہیں کھایا ہوتا اس لیے جسم کو ورزش کی چاہت بھی ہوتی ہے۔

صبح سویرے ورزش کرلی جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دن بھر آرام سے بیٹھنا ایک اچھی بات ہے۔ کام کے دوران وقفے وقفے سے چہل قدمی بھی اہم ہے۔ اس سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ ایسی خواتین جن کا کام مسلسل بیٹھنے کامتقاضی ہے، ان کو چاہیے کہ دن میں کم ازکم تین مرتبہ وقفے وقفے سے چند منٹ کی چہل قدمی کرلیا کریں۔ خصوصا وہ خواتین جن کی عمر زیادہ ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہورہی ہیں ان کے یہ طریقہ انتہائی کارگر ہے۔

 آرام طرز زندگی ہمارے معمول کا حصہ ہوچکی ہے خصوصا جبکہ ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد پرائیویٹ یا سرکاری دفتروں کے روزگار سے وابستہ ہیں۔ گھر کے کم کاج بھی اکثر بیٹھ کے کیے جاتے ہیں، سفر بھی آرام دہ ہوچکا ہے، ایسے میں جسمانی حرکت بالکل ختم ہوتی جارہی ہے اور امراض بڑھتے جارہے ہیں۔

امراض قلب کے بنیادی اسباب میں سے بھی یہ بات ہے ہے زیادہ تر بیٹھے رہنے سے انسان آرام طلبی کی طرف متوجہ ہوتاہے اور آرام طلبی اور راحت رسانی دل کے امراض کو جنم لیتی ہے۔ اگرچہ صبح کی ورزش کے بعد دن بھر آرام سے رہنا مفید ہے لیکن زیادہ تر فائدہ ان لوگوں کے حق میں دیکھنے میں آتا ہے جو صبح سویرے ورزش بھی کرتے ہیں اور دن بھر وقفے وقفے سے چہل قدمی بھی کرتے ہیں۔

زیادہ دیر بیٹھنا شوگر اور ذہنی امراض کو بھی جنم لیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی اور سگریٹ جتنا زیادہ نقصان کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ نقصان اس صورت میں برآمد ہوتاہے جب مسلسل بیٹھے رہنے کی عادت اپنائی جائے۔ جگر کے امراض کا خطرہ ان لوگوں میں دس فیصد تک بڑھ جاتاہے جو سستی کا شکار ہوتے ہیں اور جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔ زیادہ بیٹھنے سے ٹانگوں کی پشت پر دبائو پڑتاہے جس سے مسلز کمروز ہوجاتے ہیں اور مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں گردوں کے امراض اور مسلسل بیٹھے رہنا کا بھی آپس میں گہراربط ثابت ہوا ہے۔

ذہن پر تنائو کی کیفیت مختلف عوامل کی وجہ سے ہوسکتی ہے جن میں بے روزگاری اور گھریلو مسائل شامل ہیں۔ لیکن زیادہ تر امکان یہی ہے کہ یہ عارضہ مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے ہو۔ مسلسل بیٹھنا سماجی دوری اور ہر ایک سے الگ تھلگ رہنے کا بھی اشارہ ہے جو کہ کسی طور پر مفید نہیں۔ بے خوابی اور خرابی صحت سے بچنے کا واحد اور دیرپا حل یہی ہے کہ متحرک رہا جائے اور بے وجہ سے بیٹھنے سے پرہیز کیا جائے۔

جمعرات، 10 جون، 2021

وٹس ایپ کے کچھ فوائد اور مثبت پہلو

 وٹس ایپ کے کچھ مثبت پہلو
وٹس ایپ ایک ایسی سروس ہے جو دنیا بھر میں مقبولیت کی نئی حدوں کو چھو چکی ہے۔ ہر وہ موبائل صارف جو سمارٹ فون کا مالک ہو، ضرور اپنے موبائل میں وٹس ایپ انسٹال رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں مقبول اس ایپ میں وہ فیچرز ہیں جو دوسری کسی بھی ذرائع مواصلات کی ایپس میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن دنیا میں ہر ایجاد کے اگر فوائد ہوتے ہیں، تو لامحالہ اس کے مضرات ونقصانات بھی ہوتے ہیں۔ یہ استعمال کنندہ پر منحصر ہوتاہے کہ وہ کیسے ایک ایجاد سے فوائد حاصل کرے اور کیسے اپنا استعمال ایسا رکھے کہ نقصانات کاسامنا بالکل نہ ہو یا کم سے کم ہو۔

 وٹس ایپ بھی نقصانات وفوائد کی حامل ایپ ہے۔ اس مضمون میں ہم اس کے فوائد کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی سب سے اچھی بات مفت استعمال ہے۔ اس کو ڈاون لوڈ کرنے انسٹال کرنے کے لیے آپ کو ان ایپ پرچیز نہیں کرنی پڑتی۔ اگرچہ کچھ عرصہ پہلے یہ افواہ تھی کہ اپنی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے شاید اس کے کچھ جارجز لاگو ہوجائیں، لیکن تاحال یہ فری میں دستیاب ہے۔ خصوصا جبکہ یہ فیس بک انتظامیہ کے زیر کنٹرول اور ان کی زیر ملکیت ہے، اس بات کا امکان قوی ہوگیا ہے کہ یہ ہمیشہ مفت میں دستیاب رہے گی، کیونکہ فیس بک کے بانی کا اپنی اس مشہورزمانہ سوشل پلیٹ فارم کے بارے میں کہنا ہے یہ مفت ہے اور ہمیشہ مفت رہے گا۔

اس کے علاوہ اس کی مثبت خصوصیات میں سے برق رفتاری ہے۔ دوسرے میسیجنگ سروسز کے برعکس، اس کی پیغام رسانی انتہائی تیز ہے اور سیکنڈز کےاندر اندر آپ اپنا صوتی یا تحریری پیغام دنیا کے کسی بھی کونے میں بآسانی پہنچاسکتے ہیں۔ وائس کال کی عمدہ سروس کی بدولت ہر موبائل صارف آسانی سے بذریعہ آواز اپنے سے رابطے میں رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے کوئی ادائیگی بھی نہیں کرنی پڑتی۔ سوائے انٹرنیٹ کے خرچہ کے اس کوئی زائد خرچہ نہیں ہے۔

سلائیڈ شوز، پی ڈی ایف فائلز، اور وہ ڈاکومنٹس جو سوایم بی کے لگ بھک مقدار رکھتی ہوں، آپ آسانی سے دوسرے صارف کو بھیج سکتے ہیں۔ اس طرح کی سروسز عام طور پر صارفین سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور سکرین پر اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے جس سے ایک عام آدمی زچ ہوجاتاہے۔ وٹس ایپ کی خصوصیت ہے کہ یہ آپ کے موبائل کی سکرین کو صاف رکھتی ہے اور کسی قسم کے اشتہارات شائع نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے آپ اس کا استعمال بغیر کسی پریشانی کے کرسکتے ہیں۔

پیغامات غلطی سے بھیج دیے جائیں تو وٹس ایپ آپ کو سہولت دیتی ہے کہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر آپ اس پیغام کو حذف اور ڈیلیٹ کردیں، آپ کا بھیجا ہوا پیغام دوسرے کی نظر سے اوجھل ہوجائےگا اور یوں آپ کی پرائیویسی میں کوئی خلل نہ آئے گا۔ وٹس ایپ انسٹال ہونے کے فورا بعد آپ کے موبائل میں موجود نمبرز اپ ڈیٹ ہوجاتے ہیں اور جو جو وٹس ایپ استعمال کررہے ہوتے ہیں وہ آپ کی لسٹ میں شامل ہوجاتے ہیں، پھر ان سے آپ بآسانی مفت میں رابطہ کرسکتے ہیں۔ آپ کہیں بھی ہوں، اگر موجودہ لوکیشن دوسروں سے شیئر کرنا چاہیں تو یہ بھی ممکن ہے۔ پندرہ منٹ، ایک گھنٹہ اور آٹھ گھنٹے کے لیے یہ فیچر استعمال کیا جاسکتاہے۔

بدھ، 9 جون، 2021

خیرخواہی کے فوائد اور خود غرضی کے نقصانات

ہمارا معاشرہ دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح ہے جہاں خود غرضی اور نفسا نفسی کا دور دورہ ہے۔ بجائے اس کے کہ معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم ٹانگین کھینچنے میں مصروف ہیں،ویسے تو معاشرے میں کئی برائیاں جنم لے چکی ہیں جن کے سد باب کی طرف نہ کوئی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام موجود ہے۔ لیکن چند برائیاں ایسی ہیں جو ہمارے معاشرے کے وجود کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہیں۔

مثلا ایک دوسرے کی جاسوسی کرنا، دوسروں کے کاموں میں بے جا مداخلت، حسد، کسی کو نعمت مل جانے اس کے چھن جانے کی تمنا کرنا وغیرہ۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ مشکلات میں گھرے انسان کی مدد کو تو کوئی نہیں آتا، البتہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس بے چارے انسان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا  جاتاہے۔ یہ رویہ اور طرز عمل صرف سیاست اور سماج میں نہیں ہے، بلکہ خاندانی نظام بھی اس کی شدید لپیٹ میں ہے۔

اگر گھروں میں ہونے والے جھگڑوں کو دیکھا جائے تو پس منظر میں صرف ایک ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ اپنے حقوق کس طرح حاصل کیے جائیں۔ دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنا ایک المیہ ہے جو کئی ناچاقیوں کو جنم لیتا ہے۔ اس خلفشار اور بدامنی کو روکنے کے لیے معاشرہ کی تربیت ناگزیر ہے۔

لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ مفاد پرستی اور خودغرضی مسائل کا حل نہیں ہے۔ مسائل کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دوسروں سے خیر خواہی کرے اور دوسروں کے کام آئے۔ علماء معاشرے کا ایک اہم فرد ہیں جن کی رسائی عوام تک ان کی تربیت کو آسان کردیتی ہے۔ جمعہ کے خطبات اور دیگر وعظ ونصیحت کی مجالس میں اصلاح معاشرہ کا اہم کام بخوبی انجام دیا جاسکتاہے۔

دنیا میں کئی مرتبہ دیکھا گیا ہے اچھے عقیدے اور نیک اعمال والے لوگ بھی جھگڑوں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ذرا سی مزاج کے خلاف کوئی بات ہوگئی تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ بکثرت ایسی احادیث وارد ہیں جن میں خیر خواہی اور ایک دوسرے کے کام آنے کی ترغیب آئی ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

ہمارا معاشرہ جس اخلاقی پستی کا شکار ہے اس کے لیے ہمیں بہت محنت کی ضرورت ہے۔ خیرخواہی کا جذبہ اورہمہ وقت قربانی کے لیے تیار رہنا اصلاح معاشرہ کی کنجی ہے۔ جب تک دوسروں کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائےگا، معاشرے میں اصلاح ممکن نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی ہمارے معاشرے کو بہتری کی طرف گامزن فرمائے۔

پیر، 7 جون، 2021

اٹھنے، بیٹھنے اور سونے کے رہنما اصول

اچھی صحت کے لیے متوازن غذا کے ساتھ کئی دیگر عوامل پر کاربند ہونا بھی ضروری ہے جن میں توازن اور اعتدال کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا شامل ہیں۔ صرف یہی نہیں، لیٹنے کا عمل بھی صحت پر اثر انداز ہوسکتاہے، لیٹنے میں بھی توازن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اپنے جسم کو بہتر طریقے سے حرکت میں لانے کے لیے ماہرین اٹھنے اور بیٹھنے چند بنیادی چیزوں کو اہمیت دیتے ہیں۔

 روزمرہ کے معمولات میں اس بات کاخیال ضروری ہے کہ جسم کے تمام اعضاء پر دبائو اور زور اعتدال کے ساتھ ہو۔ ایسا نہ ہو بعض اعضاء سے غیر معمولی کام لیاجائے جبکہ دیگر اعضاء کو معطل چھوڑ دیا جائے۔ انسانی جسم کے تمام اعضاء یکساں اہمیت کے حامل ہیں، ان سے حد اعتدال سے کام لینا اچھی صحت کی ضمانت ہے۔ ریڑھ کی ہڈی، گردن اور سر میں درد کی شکایات آج کل عام ہیں، جن کے اسباب میں ہماری بے اعتدالی کافی حد تک کارفرما ہے۔

اٹھنے بیٹھنے کے غلط طریقوں پر روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا رہتاہے۔ والدین اگر بچوں کی شروع سے تربیت نہ کریں تو یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے اور اس سے چھٹکارا ناممکن ہوجاتاہے۔ صحت مندانہ نشست وبرخواست صرف جسمانی صحت کے لیے ہی مفید نہیں بلکہ اس سے انسان کی شخصیت میں بھی نکھارآتاہے۔

جسم کی حرکات وسکنات پر کنٹرول بعد میں مشکل ہوسکتاہے اگر شروع سے اس کی مشق نہ کی جائے۔ ذراسی کوشش سے جسم کے اعضاء کو مناسب حرکت میں لانا ممکن  بنایا جاسکتاہے۔ جوڑوں میں درد اور جسم می درد کی ٹیسیں اٹھنا ایک عام سی بات ہے جو کہ ہمارے معاشرے کے افراد کو اپنی لیپٹ میں لیے ہوئے ہے، حالانکہ اگر ہم اسباب پر غور کریں تو سوائے بے احتیاطی کے کچھ معلوم نہ ہوگا۔

مسلسل بیٹھے رہنا مضر ہے۔ ماہرین طب کے مطابق آدھا گھنٹا بیٹھنے کے بعد بیس سے تیس قدم چلنا ان اثرات بد کو ختم کرسکتا ہے جو بیٹھنے کے نیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ چہل قدمی سے سارے اعضاء اپنے صحیح رخ پر آجاتے ہیں، جس سے جسمانی نظام فعال رہتاہے۔ کوئی وزنی چیز اٹھانے کے لیے کمر پر زور دینے کے بجائے گھٹنوں پر زور دینا مناسب ہے تاکہ کمر کو تکلیف نہ پہنچے۔

انسانی زندگی میں نیند اور سونا بھی اہمیت سے خالی نہیں۔ اسلام نے جہاں ہمیں زندگی گزارنے کے طورطریقے بتائے ہیں وہان نیند کے آداب کو بھی فراموش نہیں کیا۔ نیند میں انسان تقریبا اپنی تہائی زندگی گزاردیتاہے لیکن سکون اور اطمینانی کی نیند تبھی میسر آسکتی ہے جب صحیح ڈھنگ سے اور اسلامی اصولوں کے مطابق نیند پوری کی جائے۔ جلدی سونا اور بغیر ضرورت کے جاگنے سے پرہیز کرنا ایسی صفت ہے جس کی احادیث نبویہ میں تاکید ملتی ہے۔ حضورﷺ عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد فضول کی باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے

ہفتہ، 5 جون، 2021

اپنے آپ کو کس طرح فٹ رکھیں


انسانی زندگی مصروف ہوتی جارہی ہے، اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ باقاعدہ جم جاکر ورزش کی جائے اور اپنے اعضاء کو متناسب رکھنی کی فکر کی جائے۔ ضرورت ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ انسان کی معاشی حالت بھی خراب نہ ہو اور اپنی جسمانی صحت کو باقی رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کا بھی ناغہ نہ ہو۔ غیر متوازن زندگی کئی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے، متوازن زندگی اختیار کرنا آسان ہے۔

انسان کی زندگی میں عمر کے مختلف دور آتے ہیں۔ عمر کا ہرمرحلہ پہلے مرحلے سے مختلف ہوتاہے۔ ساری عمر اپنے آپ کو فٹ رکھنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے، اس  کی وجہ یہ ہے کہ اچھی صحت کے اصولوں پر پابندی کرنا دشوار ہے۔ پہلے تو بچپن کا مرحلہ ہوتاہے جس پر بقیہ عمرکا دارومدار ہوتاہے۔ شروع سے اچھی خوراک بقیہ عمر کے مراحل طے کرتی ہے۔ بچے کی خوراک میں اہم ترین غذا ماں کا دودھ ہے، اس سے نہ صرف صحت کی بقاء ہے بلکہ ہڈیوں اور جسمانی اعضاء کو توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ماں کا دودھ میسر نہ ہو تو اس کے متبادل موجود ہیں۔ اچھا اور صحت بخش دودھ فراہم کیا جاسکتا ہے جس سے جسمانی ساخت اور نشونما میں بڑھوتری آئے کیونکہ اس زمانے کی صحت جوانی میں بھی کام آتی ہے۔

بچے کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی خارجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کی نگرانی ضروری ہے لیکن ہر وقت اسے گھر میں قید رکھنا اور جسمانی کھیلوں کی اجازت نہ دینا بھی نقصان دہ ہے۔ مختلف کھیل سکھائے جاسکتے ہیں جن میں کرکٹ اور فٹ بال قابل ذکر ہیں۔ آوٹ ڈور گیمز سے بچہ نہ صرف صحت مند رہتاہے بلکہ ضرورت سے زیادہ وزن پر بھی کنٹرول حاصل ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ جوانی کے دنوں میں وہ اپنا وزن کم کرنے کا سوچے، شروع ہی سے کھیلوں میں اس کی دلچسپی بڑھائی جائے تاکہ بڑھے پیٹ اور ضرورت سے زیادہ وزن کی مشقت اٹھانے کی نوبت نہ نہ آئے۔ فیملی کو چاہیے کہ بچے کے ساتھ کھیلوں میں شریک رہٰیں، اپنی فیملی کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں میں مشغول رہنا خارجی سرگرمیوں سے بدرجہا بہتر ہے۔

اٹھارہ سے پینتیس سال کی عمر وہ ہوتی ہے جس میں انسان عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ روزگار اور فکر معاش سے وابستہ ہوجاتاہے۔ اس عمر میں رہن سہن بدل جاتاہے بچپن میں گزری تن آسانی کی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور ذمہ داریوں کا بوجھ یکدم کندھے پر آجاتاہے۔ اس دوران اس کی زندگی مصروف ہوجاتی ہے اور زیادہ کھیل کود کی توجہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ بچپین میں ایسی سرگرمیاں ہونی چاہیں کہ نوجوانی کے دنوں میں انسان کی صحت پر برا اثر نہ پڑے۔

کھانا کھانے کے دوران ضروری ہے کہ توجہ پوری طرح کھانے کی طرف ہو، دوسری سرگرمیاں مثلا کمپیوٹر یا موبائل کا استعمال مضر ہے۔ یہ نہ صرف نظام ہضم کو متاثر کرتاہے بلکہ غذا کے جزو بدن بننےسےبھی رکاوٹ کا باعث ہے۔ غذا سے مکمل مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کھانے کے دوران دیگر غیر متعلقہ سرگرمیوں سے اجتناب کیا جائے۔

جمعہ، 4 جون، 2021

شوگر سے کیسے بچیں؟

دنیا صحت کے مسائل سے دوچارہے، جن میں سرفہرست ذیابیطس ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، ہرگزرتا دن اس کے مریضوں میں اضافہ  لاتاہے۔ یہ مرض بے شمار جسمانی مشکلات ساتھ لے کر آتا ہے جن میں نظر کی کمزوری، اعصابی اضمحلال، گردوں کے پیچیدہ مسائل، فالج اور دماغی امراض شامل ہیں۔ یہ مرض ابتدائی مراحل میں جان لیوا نہیں ہوتا لیکن جان جوکھوں میں ضرور ڈال دیتاہے۔ علامات ظاہر ہونےسے پہلے اگر ذرا توجہ کی جائے اور احتیاط کو بروئے کار لایا جائے تو اس مرض سے بچا جاسکتاہے یا کم ازکم اسے موخر تو ضرور کیا جاسکتا ہے اور انسان اپنی جوانی کے قیمتی سال خوشگوار گزار سکتاہے۔

ابتدائی مراحل میں خون میں شوگر کی مقدار نارمل سے کچھ زائد ہوتی ہے، اسے شوگر کا نام تو نہیں دیا جاسکتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسے پری  شوگر یا پری ذیابیطس کہا جاسکتاہے۔ اس حالت کے کئی اسباب ہیں جن میں سرفہرست ورزش کا فقدان، سستی اور کاہلی کا ہونا، چربی کی زیادتی، خوراک میں بے اعتدالی قابل ذکر ہیں۔ قریبا پانچ سال تک انسان کو اس مرض میں مبتلا ہونے کا احساس نہیں ہوتا، اور جب یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے تو اس کو کنٹرول کرنا بے حد مشکل ہوجاتاہے۔ انسان دوائوں کا اسیر ہوجاتاہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کے اخراجات اور دوائوں میں اضافہ ہوتا جاتاہے۔

اچھی بات یہ ہے بروقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس کی شدت مین کمی لائی جاسکتی ہے۔ انسانی جسم میں ضروری انسولین کا ہونا نہایت اہم ہے۔ بدن میں کافی انسولین نہ ہو تو انسان اس مرض میں مبتلا ہوجاتاہے۔ خون میں انسولین کےپیداہونے کا ذریعہ لبلبہ ہے جو انسولین خارج کرتا رہتا ہے اور جسم کو مناسب مقدار میں یہ چیز مہیا ہوتی رہتی ہے۔ اگر لبلبہ کمزرہوجائے اور خون میں مناسب انسولین مہیا نہ کرے تو ایسی حالت کو ذیابیطس کہتے ہیں۔

لبلبہ انسولین پیداکرنا کب چھوڑتا ہے؟ ریسرچ سے معلوم ہوتاہے کہ اس کے اسباب میں سے جہاں خوراک کے بے اعتدالی اور موروثیت کارفرما ہیں، نیند کی کمی کو اس چیز میں بڑا دخل ہے۔ بروقت نیند لینا اور نیند پوری کرکے بستر سے اٹھنا نہایت اہم ہے۔ روزانہ رات کو سونے کے لیے چھ گھنٹے سے کم دورانیہ اس مرض کے خطرہ کو بڑھا سکتاہے۔ علاوہ ازیں چکنائی کا استعمال بھی اس سلسلے میں مضر ثابت ہوا ہے۔

شوگر کی علامات ظاہر نہ ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ٹل گیا ہے۔ اس کی علامات جلدی ظاہر نہیں ہوتیں، سالہا سال تک انسان نارمل زندگی گزارتا ہے اس کے بعد یہ مرض اپنا اثر دکھانا شروع کردیتاہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شروع ہی سے احتیاط پر عمل کیا جائے، متوازن خوراک پر توجہ دی جائے، مناسب ورزش کو اپنا معمول بنایا جائے اور ذہنی تنائو اور اعصابی کمزوری والی تمام چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔ کولڈ ڈرنکس اور سفید چاول سے مکمل پرہیز کیاجائے، اور گندم کی روٹی ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کی جائے۔ بھوک مٹانے کے لیے سلاد اور کم کیلوریز والےپھل استعمال کرنا مفید ہے۔


Earn money online through your mobile