بدھ، 16 جون، 2021

شجرکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمہ داریاں

 شجرکاری، ماحولیاتی آلودگی اور ہماری ذمہ داریاں
اللہ تعالی کی بے شمار نعمتیں ہم پر ہر روز ہوتی ہیں لیکن ہم ان کا حق ادا نہیں کرتے۔ ان نعمتوں سے ہم خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ان نعمتوں کو کس طرح باقی رکھنا ہے اور کس طرح ان کے مستفید ہونے کے لیے کردار ادا کرنا ہے، ہم اس بات سے یکسر ٖغافل ہیں۔

ہم بحیثیت معاشرہ اندر سے کھوکھلے اور بیمار ہوچکے ہیں، لیکن ہم ادراک نہیں کرپارہے کہ اس کا ایک بڑا سبب فضائی آلودگی ہے۔ آکسیجن کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے جس کی وجہ سے اس کائنات انسانی کی بقاء ہے لیکن ہم درختوں کی اہمیت سے انجان ہیں جو آکسیجن پیدا کرنے کااہم ذریعہ ہیں۔ درخت ہمیں نہ صرف آکسیجن چھانٹ کردیتے ہیں بلکہ سخت گرمی میں ہمیں ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ماحول کو درست رکھنے کے لیے کوڑا باہر پھینکنا بھی فضا کو متعفن کردیتا ہے۔ ایک مہذب معاشرہ ہمیشہ  اس چیز کا خیال رکھتا ہے۔ گاڑیاں جو بے تحاشہ دھواں نکالتیں ہیں ماحول کوزہریلا بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

حکومتی سطح پر شاپنگ بیگ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور مختلف اشتہارات کے ذریعہ اس کی روک تھام کی طرف توجہ بھی دلائی جاتی ہے۔ تاہم جب تک معاشرے کے افراد اس کی طرف توجہ نہ دیں گے، اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔ پٹرول، ذیزل، اور زرعی سپرے میں کمی کی ضرورت ہے، ماحول کو پاک صاف رکھنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کرنے کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہم اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، اس طرح ہمیں قرب وجوار کی درختوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ درخت کاٹنے والوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے تاکہ ماحول زیادہ سے زیادہ پرسکون رہ سکے۔

درختوں کی آبیاری کو ہمیں اپنا قومی فریضہ سمجھنا چاہیے، اپنے بزرگوں اور اپنےوالدین کے نام پودے لگانے چاہییں، اساتذہ اور ائمہ مساجد کی عوام تک براہ راست رسائی ہوتی ہے، انہیں چاہیے کہ عوام میں اس حوالے سے بیداری پیدا کریں اور ان کو زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ترغیب دیں۔ گلوبل وارمنگ کا ہر طرف چرچا ہے اور اس خطرے کو بروقت بھانپ لینا ہی دانش مندی ہے۔ درختوں کی کمی اور پھر ناپیدی سے زیرزمین پانی کا اندیشہ منڈلا رہا ہے۔ اس طرح پینے کے صاف پانی کی کمی بھی اسی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہے، جس کی وجہ سے نوع انسانی کی بقاء بھی خطرے میں پڑگئ ہے۔

اگر جنگلات کو یوں بے رحمی سے کاٹا جاتا رہا تو 2080 تک شاید ہمیں سدا بہار درختوں سے محروم ہونا پڑے۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق روئے زمین پر پھیلا جنگلات کا ایک وسیع علاقہ بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے اور وہاں رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ اس  کے نتیجہ میں سیلاب طوفان اور دیگر آفات مسلسل روئے زمین کو اپنی لیپٹ میں لے رہی ہیں۔
بحیثیت قوم ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے محلے، شہر، اور علاقے سے شجرکاری کا آغاز کریں اور اپنے حلقہ اثر تک اس کی اہمیت اجاگر کریں تاکہ نوع انسانی کو درپیش خطرات کا بروقت سدباب کیا جاسکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Earn money online through your mobile