ہفتہ، 29 مئی، 2021

بڑھاپے کی مشکلات کیسے حل کریں؟

انسان بسا اوقا جوانی اور وسائل کے بل بوتے پر فرعون بن جاتاہے اور وہ یہ بھول جاتاہے کہ ایک دن جوانی نے زائل ہوجانا ہے اور یہ رعنائیاں اور سہولیات کافور ہوجائیں گی۔ ایسے میں ایک تو انسان کو تواضع اختیار کرنی چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ جوانی کی دہلیز پار کرنے والوں کا خیال رکھے۔

بڑھاپا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر انسان جو بقید حیات ہو، گزرتا ہے۔ یہ پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی دھکے دینے سے اس سے جان چھوٹتی ہے۔ اس کا اثر بھی فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنا اثر دکھاتاہے۔ بڑھاپا مسلسل عمل کا نام نہیں بلکہ دھیرے دھیرے اور کبھی وقفے سے نمودار ہوتاہے۔ اس کے مضر اثرات بسااوقات جلدی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی سالوں تک انسان بڑھاپے کے زیر اثر نہیں آتا بلکہ زندگی کا ایک لمباعرصہ اچھی صحت کے ساتھ گزارتاہے اگرچہ شمار میں اس کی عمر کافی زیادہ ہو۔

بڑھاپے کے ظہور کا عمل مردوں اور عورتوں میں بھی یکساں نہیں ہوتا۔ بسااوقات مردوں میں بڑھاپے کی رفتار تیز ہوتی ہے اور کبھی عورتیں اس کا شکار جلدی ہوتی ہیں۔ نیز انسان کے اندرونی اعضاء بھی اس سے یکساں متاثر نہیں ہوتے۔ جگر دیگر اعضاء کے مقابلے میں جلد بڑھاپے کی زد میں آتاہے اور نسبتا جلدی اپنا اثر دکھانا کم کردیتاہے۔ بڑھاپے کے ساتھ انسان کے تمام اعضاء اپنا اثر دکھانا یا کم کردیتے ہیں یا بالکل چھوڑدیتے ہیں۔ مثلا بینائی روزبروز متاثر ہوتی ہے، قوت سماعت میں خلل آنا شروع ہوجاتا ہے، اس طرح دیگر اعضاء کا حال ہے۔

بوڑھے افراد ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں، عمررسیدگی چڑچڑے پن کا بھی باعث بنتی ہے، لہذا افراد خانہ ان کی باتوں سے پریشان نہ ہوا کریں، انہیں توجہ دیں اور ان کو احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ان کی تند وتیز باتوں کا جواب تیزطریقے سے دینے سے بجائے تحمل سے پیش آنا ضروری ہے۔

زندگی کے اس تیز سفر میں اولاد کو چاہیے اپنے بوڑھے والدین کے لیے وقت نکالیں، ان سے گفتگوکریں تاکہ وہ وحشت اور تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ اولاد اگر اپنے پائوں پر کھڑی ہے تو والدین کو اطمینان ہوتاہے، لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو والدین بیک وقت بڑھاپے اور فکر معاش دونوں سے لڑرہے ہوتے ہیں۔

اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے دوسرے شہروں میں آباد ہوجاتے جہاں زندگی کی سہولیات نسبتا اچھی ہوتی ہیں یا وہ اس جگہ ملازمت کرتے ہیں جہاں مشاہرہ اچھا ہوتاہے اور اپنے بوڑھے والدین کو دیہات میں چھوڑ دیتے ہیں۔ مجبورا ریٹائرمنت کے بعد بھی انہیں فکر معاش لاحق ہوتی ہے اور اپنی گزربسر کے لیے وہ کوئی کارروزگار ڈھونڈنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسے میں اولاد کا فرض ہے کہ وہ والدین کو تنہا نہ چھوڑیں، ان کا ہرلحاظ سے خیال رکھیں تاکہ وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔

بڑھاپے کے زیر اثر آنے سے پہلے انسان کو خود بھی اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ مفید طبی غذائیں اور زندگی میں توازن رکھنا بڑھاپے کے اثرات بد کو زائل کرنے کے لیے معاون ثابت ہوسکتاہے۔

جمعہ، 28 مئی، 2021

توانائی بڑھانے کا طریقہ

ہم میں اکثر صبح سویرے جب اٹھتے ہیں تو جسمانی تھکن کی شکایت ہوتی ہے۔ خود کو کمزور وناتواں سمجھنے کا احساس ہوتاہے اور جب تک چائے نہ پی جائے یا کچھ اور غذائیت نہ لی جائے، جسم میں نقاہت محسوس ہوتی ہے۔ بقیہ دن بھی مختلف نہیں ہوتا، کمزوری کا احساس برقرار رہتا ہے اور کبھی بلاوجہ انسان خود کو توانا محسوس کرتاہے۔ اکثر افراد صبح سے دوپہر تک عدم توانائی کے ساتھ کام میں جتے رہتے ہیں لیکن دوپہر کے بعد یہ تھکان اور سستی غالب آجاتی ہے۔ دوپہر کو قیلولہ ضروری ہے لیکن اگر قیلولہ کا وقت نہ ملے یا ٹھیک سے نیند نہ آئے، تو نقاہت بہت بڑھ جاتی ہے۔

توانائی کسے کہتے ہیں؟ توانائی کا مطلب ہے بدن میں قوت ہو، ذہن کام کے لیے تیار ہو، اور کام کے دوران اکتاہٹ محسوس نہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ توانائی ہی زندگی ہے۔ اس زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ مثبت اقدامات کی طرف توجہ دی جائے۔ اگر انسانی جسم سے تونائی ختم کردی جائے تو سوائے گوشت پوست کے بدن میں کچھ باقی نہیں بچتا۔ ریسرچ سے ثابت ہے کہ توانائی نہ تو ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور نہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتاہے۔ بلکہ توانائی کا عمل کمی بیشی سے ہوتا رہتاہے۔ کبھی توانائی میں کمی ہوتی ہے اور کبھی غیر ضروری طور پر زیادتی بھی محسوس ہوتی ہے۔ توانائی پر اثر انداز ہونے والی چیزیں متعدد ہیں جن میں ورزش، نیند، جوش وخروش، اور غذائیت سرفہرست ہیں۔

نیند وقت پر لینا اور پوری لینا بے حد ضروری ہے۔ نیند میں کمی کئی خطرات کو جنم لیتی ہے جس کا منفی اثر انسان کی توانائی کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ نیند کی کمی خواہ کم ہو یا زیادہ، بہرحال منفی اثر رکھتی ہے۔ صرف ایک گھنٹہ کی نیند کی کمی 20 فیصد کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔ لوگ نیند کا راستہ روکنے کے لیے کئی تدابیر اختیار کرتے ہیں جن میں چائے اور کافی قابل ذکر ہیں، جنکا زیادہ استعمال بہرحال مضر ہے۔ نید کی کمی طاقت کو اگر کم کرتی ہے تو نیند کی زیادتی اور نیند پوری لینا طاقت میں اضافہ کا سبب بھی ہے۔ لوگ اتوار کی چھٹی کو غنیمت سمجھتے ہوئے دیر تک سوتے رہتے ہیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ انسان کی صحت کے لیے ضروری ہے روزانہ جلدی سوئے اور جلدی بیدار ہوکرنماز پڑھے اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوجائے۔

نیند جسم کے کئی نظاموں کے لیے مفید ہے۔ وقت پر لی گئی نیند تنائو کو کم کرتی ہے۔ اور انسان اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتاہے۔ توانائی کا ایک اہم ذریعہ چہل قدمی بھی ہے۔ دس منٹ تک انسان چلے یا دوڑے تو اس سے جسم میں آکسیجن پہنچتی ہے۔ لفٹ کا استعمال معذوروں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے، ایک نارمل انسان اگر سیڑھیوں پر چڑھے تو اس سے بھی توانائی حاصل کرنے میں مدد ملتی  ہے۔

جوش وخروش اور توانائی کا بھی گہرا ربط ہے۔ انسان کو کوئی چیلنج درپیش ہو تو آٹومیٹک توانائی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ انسان ٹھان لیتا ہے کہ اس مشکل پر بہرحال قابو پانا ہے۔ اس لیے جوش وخروش کو کسی صورت کم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے مزاج اور رویے کا تعلق دماغ میں پائے جانےوالے کیمائی اجزاء سے بھی ہوتاہے۔ چیلنجز کو قبول کرنا اور مشکلات پر قابو پانے کی ٹھان لینا انسان کو اندرسے بیدار اور چاق وچوبند رکھتا ہے۔

بدھ، 26 مئی، 2021

خوشی اور صحت کا آپسی تعلق

یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ہنسی علاج غم ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ ہنستے مسکراتے رہنے سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ دنیا کے غم اور زندگ کی تکالیف صرف مسکرانے سے تو ختم نہیں ہوتیں، ہاں اتنا ضرورہے کہ مشکلات کی شدت میں کمی کا احساس ضرور ہوتاہے۔ کچھ حوصلہ ہوجاتاہے کہ انسان پریشانیوں کا مقابلہ کرسکے۔ نفسیاتی طور پر مسکرانے سے اور بہ تکلف خوش رہنے سے تازگی کا احساس ہوتاہے،تخلیقی سوچ پیدا ہوتی ہے جس سے پریشانیوں کا حل ڈھونڈا جاسکتاہے۔

کئی ترقی یافتہ ممالک خوش رہنے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں، محافل منعقد کی جاتی ہیں جن میں ہم مزاج لوگوں کو مدعو کیا جاتاہے۔ ایک دوسرے کو لطیفے سناتے ہیں، یوں کچھ تفریح کا سامان تھوڑی دیر کے لیے میسر آجاتاہے۔

انسانی مزاج عجیب قسم کا ہے، ہنسی اور مذاق کا اس پر گہرا اثر پڑتاہے۔ یہ اثر جانچنے کے لیے امریکہ میں ایک ریسرچ کی گئی۔ شرکاء کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصے کو ایک خاص سٹک دی گئی اور اس کو ہونٹوں میں دبانے کو کہا گیا۔ دوسرے گروپ کو بھی ایک مخصوص سٹک دی گئی اور انہیں کہا گیا کہ اس کو اپنے دانتوں میں دبا کے رکھیں۔ نتیجہ حیران کن سامنے آیا۔ ہونٹوں میں دبا کے رکھنے والوں کے چہرے سپاٹ ہوگئے اور یوں محسوس ہوا جیسا کہ وہ شدید ذہنی اذیت سے گزرے ہیں۔ اس کے برعکس جنہوں نے سٹک دانتوں میں دبا کررکھی تھی، ان کے چہرے غیر معمولی طور تروتازہ نظر آئے اور محسوس ہوا جیسے وہ خوشی کے احساس سے گزر کر ائے ہیں، کیونکہ ان کی ہیئت ایسی تھی جیسے ہنسی کے وقت کسی کی باچھیں کھل جائیں۔

نہ صرف یہ کہ تجربے کے بعد، دونوں گروپوں میں فرق محسوس کیا گیا۔ بلکہ اس تجربے کے دوران بھی واضح طور پر شرکاء کے خیالات مختلف سامنے آئے۔ سٹک کو ہونٹوں میں دبا کے رکھنے والوں نے بتایا کہ یہ سرگرمی خاصی تھکادینے والی تھی، وہ اکتاہٹ کا شکار ہوئے اور اس تجربہ کو جلد سے جلد ختم کرنے کے متمنی ہوئے۔ جبکہ دانتوں میں دبا کے رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ نہایت لطیف تھا، انہیں کوئی اکتاہٹ اور تھکن محسوس نہ ہوئی، اور خوش اسلوبی سے یہ عمل انجام پایا۔

یہ تجربہ ہمیں سکھاتا ہے کہ خوش اسلوبی سے انجام دیے جانے والے کام بوریت سے بچاتے ہیں، تھکن کا احساس نہیں دلاتے اور کام ختم ہونے کے بعد بھی انسان چاق وچوبند رہتاہے۔ اس کے برعکس، زبردستی کروانے جانے والے کام انسان کو مضمحل کردیتے ہیں۔ دل نہیں لگتا اور انسان فوری طور پر ذہنی پریشانی کا شکار ہوجاتاہے۔

ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہنے سے انسان کئی بیماریوں کا شکار ہونے سے بھی بچ جاتاہے، جن میں امراض قلب سرفہرست ہیں۔ دل کی صحت کا تعلق حیرت انگیز طور پر ہنسی خوشی اور لوگوں سے میل جول میں مضمر ہے۔ اس کے علاوہ یہ چیز انسانی خود اعتمادی میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ خوش وخرم رہنے والے بلاکے پراعتماد ہوتے ہیں باوجودیکہ ان میں تخلیقی صلاحیت غیر معمولی طور پر نہ بھی ہو۔ ایسے لوگ مشکل حالات پر قابوپانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور خود پر  مسائل کو حاوی نہیں ہونے دیتے۔

منگل، 25 مئی، 2021

کام کے دبائو میں ذہن کو کیسے پرسکون رکھیں

خواہ آپ کسی پرائیویٹ ادارے میں کام کرتے ہوں، یا سرکاری پوسٹ پر ہوں، دفتری امور کی انجام دہی میں اکثر لوگ سٹریس یعنی ذہنی تنائو کی شکایت کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کام کی رفتار تیزسے تیز تر ہورہی ہے، اس طرح انسان بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہا ہے۔ سبقت لے جانے کی سعی مثبت اور قابل مدح ہے، لیکن اس کی قیمت ذہنی دبائو اور تنائو کی صورت ادا کرنا کسی طرح سود مند نہیں۔ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا سب سے بڑا سبب کاموں کی زیادتی ہے۔ ایک ہی وقت میں مختلف کام نمٹانا دماغی صحت کے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے انسان کی فوکس کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے جس کا نتیجہ کام کے ناقص اور بے فائدہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 62 بلین ڈالر کی سٹریس کی ادویہ خریدی جاتی ہیں اور قریبا 100 بلین ڈالر کے لگ بھگ اداروں کو ا س حوالے سے نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔ ویسے تو کام کی زیادتی کی وجہ سے ذہنی صحت کے متاثرین ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں لیکن حفاظتی اداروں اور بینکوں کے ملازمیں اس مرض کی لپیٹ میں زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ملازم کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان ملازمت سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے۔ اگر ایسے لوگ کاروبار سے منسلک ہوں تو ان کا کاروبار بھی خطرے میں پڑسکتاہے۔ اگر ذہنی صحت میں خلل کی علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اس کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذہنی تنائو کا سبب صرف کام کی زیادتی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے کئی اور عوامل بھی ہیں، جیسے ملازمت چھوٹ جانے کا خوف، دیر تک آفس میں کام کرنے کی وجہ سے اکتاہٹ، کارکنوں کی کمی وغیرہ۔ اس طرح کبھی انسان اس مرض میں اس وجہ سے بھی مبتلا ہوسکتا ہے کہ کہیں باس یا کلائنٹ ناراض نہ ہوجائے۔ علاوہ ازیں کبھی ملازم ہرکام جلدی سے اس لیے بھی کرتاہے تاکہ دوسروں پر اچھا تاثر پڑ سکے، لیکن اس کے نتیجہ میں وہ خود کو ہلکان کرلیتا ہے پھر ذہنی عوارض میں مبتلا ہوجاتاہے۔

اس مرض کی علامات بھی متعدد ہیں۔ مثلا مسلسل پریشانی، چڑچڑاپن، الجھن، اور کام میں دلچسپی کا نہ ہونا۔ اس طرح اگر انسان لوگوں سے میل جول رکھنے سے کتراتا ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ وہ ذہنی صحت کے حوالے کسی خاص پریشانی کا شکار ہے۔ میل جول نہ رکھنا فطری بھی ہوسکتاہے، لیکن اکثر اس کا سبب ذہنی تنائو ہوتاہے۔

چند اسان تدابیر اختیار کرکے اس بیماری سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثلا اپنے دن کا آغاز ورزش سے کیجئے۔ دن کا پہلا گھنٹہ اگے 23 گھنٹوں کے لیے آپ کا لائحہ عمل طے کرسکتاہے۔ صبح نمازسے فارغ ہونے کے بعد پیدل چلنا معمول بنایا جائے تو کافی حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ چہل قدمی کے لیے خاص اہتمام کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں، بلکہ وقتا فوقتا روزانہ کے پیدل چلنے کی مقدار پوری کی جاسکتی ہے۔ کام پر جانے کے بعد جتنی بھی ضروریات ہوں انہیں نوٹ کرلیا جائے اور ترتیب سے ان کو انجام دیا جائے۔ کاموں میں خلط اور بے ترتیبی سے کام سمیٹنا ذہنی صحت کے حوالے سے نقصان دہ ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ کاموں میں توازن کو برقرار رکھا جائے۔ 

ورزش کیوں اہم ہے؟


دنیا کا کوئی ٹانک اور طاقت کی دوا ایسی نہیں ہے جوورزش کا نعم البدل بننے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ماہرین طب کے مطابق مارکیٹ میں طاقت اور توانائی کی جتنی ادویہ دستیاب ہیں، سب کے فوائد وقتی اور عارضی ہیں۔ صرف ورزش ایسا نسخہ ہے جو دیرپا ہے اور انسان کو کئی سالوں تک تنومند اور تندرست رکھ سکتاہے۔ اس آرٹیکل میں ہم ورزش کے وہ فوائد زیر بحث لاتے ہیں جن کی افادیت مسلم ہے اور جدید سائنس ان کے صحیح ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرچکی ہے۔

سیکھنے کے عمل میں بہتری
ورزش اور دماغ کا آپس میں گہرا تعلق ہے اس لیے کہ مسلسل اور پائیدار ورزش سے ہم کسی بھی چیز کے سیکھنے کے عمل کو تیز تر کرسکتے ہیں۔ انسانی جسم میں کچھ جینز ہوتے ہیں جن سے دماغی خلیوں کا ربط ہوتاہے۔ ورزش سے ان خلیوں کو تقویت ملتی ہے۔ گوکہ اس کا مستقل فائدہ مستقل ورزش میں ہی مضمر ہے لیکن اس کے مثبت اثرات ایک دن کی ورزش سے ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ 2019 میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق کہا گیا تھا کہ کئی گھنٹے کی ورزش ضروری نہیں صرف آدھا گھنٹہ روزانہ یہ عمل کرنے سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

دماغی لچک میں بہتری اور اضافہ
سائوتھ اسٹریلیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے اعصابی لچک میں اضافہ اور بہتری انسانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے، اور ورزش سے مطلوبہ اعصابی لچک حاصل کی جاسکتی ہے۔ اعصابی لچک کا مطلب ہے اعصابی خلیات کی وائرنگ اور ترتیب وقتا فوقتابدلتی رہے۔ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اس میں انسان سیکھنے کے عمل کو بھی بہتر بناسکتا ہے، کیونکہ اعصابی لچک کا براہ راست تعلق دماغی خلیات سے ہوتاہے۔ پابندی سے ورزش ہو تو اعصابی لچک کا یہ عمل بھی پابندی سے ہوتا رہتاہے اور یوں سیکھنے کے عمل میں بہتری بڑھتی رہتی ہے۔

دماغی انحطاط اور کمزوری کاخاتمہ
عمر کے ساتھ ساتھ دماغی کمزوری اور انحطاط کا واقع ہونا فطری ہے اور ہر انسان کا اس سے واسطہ پڑتاہے۔ زیادہ نقصان اس صورت میں ہوتاہے جب دماغی خلل کی رفتار غیر معمولی طور پر تیز ہو۔ اس پر قابو پانا ممکن ہے اگر انسان ورزش کو اپنا معمول بنالے۔ باقاعدہ ورزش سے نہ صرف دماغی انحطاط سے محفوظ رہا جاسکتاہے بلکہ دیگر کئی امراض سے نجات پاسکتاہے جن کا سبب سستی، کاہلی، اور غیر متحرک ہونا ہے۔ علاوہ ازیں یادداشت کی کمزوری کا ایک  بڑا سبب بھی جسمانی طور پر معطل رہنا ہے۔ ورزش سےانسان اپنی یادداشت بھی بہتر بناسکتاہے۔ 2019 میں کئ گئی ایک تحقیق کے مطابق، باقاعدہ ورزش سے بھولنے کی بیماری کا خطرہ 32فیصد تک کم ہوسکتاہے۔ اس مرض کا جینیاتی امکان موجود ہو تب بھی ورزش سے اس کے خطرت کو حیرت انگیز حد تک کم کیا جاسکتاہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے  کہ ورزش کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی سے پرہیز ہو اور مناسب غذا کا اہتمام کیا جائے۔

ذہنی تنائو سے نجات
مستقل ذہنی تنائو ایک عارضہ ہے جس سے پوری دنیا اس وقت گزررہی ہے۔ بچے بوڑھے جوان سبھی اس اذیت سے دوچار ہیں۔ مناسب اور مستقل ورزش اس کاایک بہترین علاج ہے۔ دماغی نشونما اور ذہنی تنائو باہم مربوط ہوتے ہیں، ذہنی نشونما میں شیرخوارگی میں ماں کا دودھ اہم کردار ادا کرتاہے لیکن ورزش بھی اس سلسلے میں اتنی ہی افادیت رکھتی ہے۔ بچپن میں ہی بچون کو کھیل کود کا عادی بنایا جائے، ایسے کھیلوں کی ترغیب دی جائے جس میں انسانی جسم حرکت میں رہے۔ بڑے ہوکر ڈپریشن کے شکار ہونے کا خطرہ انتہائی کم ہوجائےگا، اور ذہنی تنائو سے نجات ممکن ہوجائے گی۔

نابیناپن کے خطرے کا مقابلہ
بڑھاپا انسان کو آہستہ آہستہ نابینا پن کی طرف لے جاتاہے۔ باقاعدہ ورزش اس خطرے کو تقریبا 45 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں ورزش بینائی کو سلامت رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

ہفتہ، 22 مئی، 2021

خود پر کنٹرول کیجئے

 خود پر کنٹرول کیجئے

ذرا سی بات پر بھڑک جانا ایک عادت سی بنتی جارہی ہے، یہ ہم میں سے کئی لوگوں کا المیہ ہے۔ معاشرتی رویوں اور داخلی وخارجی مسائل میں گھرے لوگ اپنی ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی روش اپنائے رکھتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں قرآن مجید کی نصیحت دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے جو ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ اپنے آپ کو مشتعل ہونے سے روکے رکھو۔

جدید دور کے لوگ جو گوناگوں مسائل کا شکار ہیں، خاص طور پر یہ نصیحت یاد رکھیں۔ ہم میں سے اکثر بیک وقت کئی مسائل سوچتے رہتے ہیں اور اسی وقت میں ان کے حل کے بھی متلاشی رہتے ہیں۔ نیتجہ یہ ہوتاہے کہ ذہن میں گڑ بڑ پیدا ہوجاتی ہے اور کسی نتیجہ تک پہنچے بغیر ہمارا ذہن منتشر ہوجاتاہے اور تھکان پر منتج ہوتاہے۔ جدید زندگی بہت تیز رفتار ہے، اسی تیزی کو برقرار رکھتے ہوئے ذہنی سکون کا حاصل ہونا ناممکن ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کی رفتار کو حد اعتدال میں رکھیں۔ خدائی منشا کے مطابق زندگی بسر کرنا اصل حل ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے جلدبازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ تیزی دکھانا بجائے فائدہ کے نقصان پہنچاتاہے۔ بغیر کسی خلل کے خدائی نظام وقار اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حکم دیتاہے۔ احمقانہ تیزرفتاری سے چلنا انسان کو تھکا دیتاہے۔

    پرسکون رہنا ایک مشق طلب عمل ہے۔ یہ حالت انسان کو راتوں رات حاصل نہیں ہوسکتی، عملی طور پر مسلسل مشق کرنے سے پرسکون رہنا انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ تحمل مزاجی اپنانے سے انسان کے سارے کام اپنے وقت پر بہترطریقے سے ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان اگر اپنا معمول بنالے کہ دن میں کم ازکم پندرہ منٹ اپناکام چھوڑ کر کسی خاموش جگہ بیٹھ جائے تو کافی فائدہ محسوس ہوتاہے۔ اس سے نہ صرف ذہن کو سکون ملتاہے بلکہ انسان تازہ دم ہوجاتاہے۔ بہت سے جسمانی امراض کا علاج پرسکون رہنے میں مضمر ہے۔ غصہ پر قابو پانا اور اپنے آپ کو کڑھنے سے بچانا بہت سی بیماریوں سے نہ صرف بچاتا ہے بلکہ کافی امراض کا علاج بھی ہے۔

ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ چلتے وقت زمین پر زور سے پائوں نہ ماریں،اپنے ہاتھوں کو مسلنا چھوڑ دیں، یہ ایک حماقت آمیز عمل ہے۔ علاوہ ازیں دھیمے لہجے میں بات کریں، آواز اتنی بلند ہو کہ دوسرے کو آسانی سے آپ کی بات سمجھ میں آجائے۔ شور میں بات کرنے سے نہ صرف دوسروں کو کوفت ہوتی ہے بلکہ خود متکلم کے دماغ پر برا اثر پڑتاہے اور وہ کافی دیر پریشانی کی حالت میں رہتاہے۔

جذباتیت مسائل کا حل نہیں ہے۔ مسائل کے حل کے لیے اطمینان اور پرسکون ہونا ضروری ہے۔ جذباتی ہونے سے انسان کی جسمانی حرکت بھی تیز ہوجاتی ہے جو کسی بھی طرح مفید اور کارگر عمل نہیں ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچنے کی عادت ڈالنے سے شخصیت میں نکھار آتاہے اور نتائج بہتر برآمد ہوتے ہیں۔ جسمانی دوران خون کو نارمل رکھنا بہت ضروری ہے۔ ذہنی صلاحیتیں اس وقت بہتر کام کرتی ہیں جب آپ کا جسم اور جذبات آپ کے کنٹرول میں ہوں۔ طبیعت میں تلخی ختم کرنے کے اقدامات ضروری ہیں، یہ حالت حاصل ہوجائے تو انسان جھنجھلاہت کا شکار ہونے اور آپے سے باہر ہونے سے نجات پاسکتاہے۔

غصہ کنٹرول کرنے کے دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ کئی دینی فوائد بھی ہیں۔ احادیث میں غصہ قابو کرنے کی تاکید آئی ہے، اس سے تکبر سے نجات ملتی ہے۔ تواضع پیدا ہوتی ہے، اور تواضع کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ معاشرہ میں انسان کو قدرتی عزت ملتی ہے۔

پیر، 10 مئی، 2021

ڈپریشن اور ذہنی تنائو کی صورتحال اور وجوہات

ملک عزیز پاکستان گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ جسمانی عوارض میں مبتلا افرادکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن ان عوارض میں شامل ہے جن کے بڑھنے کی رفتار حیران کن حد تک تیز ہے۔ ویسے تو اس کا شکار افراد ہر عمر اور ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن زیادہ تر افراد نوجوان ہیں۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں نوٹ کی گئی ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی شرح بائیس سے ساٹھ فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ کم آبادی کے شہروں اور دیہاتوں میں یہ صورتحال کنٹرول میں ہے لیکن جو شہر زیادہ آبادی والے ہیں جیسے لاہور کراچی وغیرہ ان میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ فی الحال پاکستان ذہنی مریضوں کی درجہ بندی میں اتنا آگے نہیں ہے، لیکن جس طرح مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس تناسب سے 2050 تک عالمی درجہ بندی میں پاکستان چھٹے نمبر پر آسکتاہے۔

ہمارے پاکستان کے بیشتر شہر جوائنٹ فیملی سسٹم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد بیٹا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا پسند کرتاہے۔ کوئی بھی مسئلہ یا بیماری ہوجائے تو گھر کے سارے افراد مریض کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مل کر اس کی بیماری کا علاج کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ گھر کا کوئی فرد اگر ذہنی ڈپریشن کا شکار ہے تو بجائے معالج کے پاس جانے کے اسے ایک پاگل پن قرار دیا جاتاہے اور مریض کو اپنی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا اور اندر ہی اندر گھر کا وہ پیارا شکست وریخت کا شکار ہوتا رہتاہے، باقی سب لوگ اپنی دنیا میں مست اور بے پرواہ رہتے ہیں۔ 

اس مضمون میں ہم  ڈپریشن کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر یہ ہے کیا اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے ۔ پہلے تو اس کو بیماری نہیں سمجھا جاتاہے، اگر کہیں اس کی شد بدھ ہے بھی، تو اس سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہے اور اس کا شعور حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ ہم اس کو معلوم کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ اس کی ایک بڑی وجہ فرسودہ روایات ورسوم ہیں جو ہمارے ہاں رشتوں اور اولاد سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے مسائل گھر میں ہی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور گھر سے باہر ان مسائل کا سامنے آنا عزت کا مسئلہ گردانا جاتاہے۔ ایک عام سے وجہ یہ بھی ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔

سب سے پہلے ڈپریشن کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں مبتلی بہ اپنے آپ کو ناکام، تنہا اور اداس خیال کرتاہے۔ اتنا کچھ تو مریض کے ساتھ ہوتا ہے لیکن معاشرہ اس کو منفی رخ دے کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ مریض کو اس گھروالے سپورٹ کریں دوست احباب اس کی ڈھارس بندھائیں اور یہ باور کرائیں کہ تم ناکام نہیں ہو۔ بروقت علاج کی ازحد ضرورت ہوتی ہے ، ورنہ مریض کی ذہنی کیفیت دگرگوں صورتحال کا شکار ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف اس کی سوشل لائف متاثر ہوتی ہے بلکہ پروفیشنلی طور پر وہ ایک بوجھ سا بن جاتاہے۔ یہ چیز اس کے کیرئیر اور زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

انہی منفی خیالات میں کھوکر مریض اندر سے کھوکھلا ہوجاتاہے۔ مسلسل خوف اور اندیشوں میں گھرا مریض جمود کا شکار ہوجاتاہے اور یہ جمود آہستہ آہستہ اس کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ اس کے سارے خواب، محبتیں اور رشتے کمزور پڑجاتے ہیں۔ 

ڈپریشن کا تعلق عمر کے کسی خاص حصے سے ہرگزنہیں ہے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ اٹھارہ سے تیس سال کے نوجوان اس کا جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی من پسند جاب نہ ملنا، دل میں تصورکردہ کامیابی کا حاصل نہ ہونا اور ضرورت سے زیادہ خواہشات کو دل میں پال کررکھنا اس کے نمایاں اسباب میں سے ہیں نئی نسل بلاشبہ ایک ڈیپریسڈ جنریشن کہلائی جاسکتی ہے۔ ذیل میں اس کے کچھ عوامل واسباب پر نظر ڈالتے ہیں۔

انٹرفیملی میرج اور جینیاتی مسائل بھی ڈپریشن کا باعث ثابت ہورہے ہیں۔ اگرچہ ہم آج اکیسویں صدی کے لوگ ہیں لیکن آج بھی ہمارے پڑھے لکھے خاندان ذات پات میں گھرے ہوئے ہیں اور خاندان کے باہر شادی کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ اکثر شادیاں زبردستی ہوتی ہیں کیونکہ خاندانی روایات کو برقراررکھنا اور خاندان کے  باہر شادی نہ کرنا ایک ایسی روایت ہے جسے خاندان کے  بزرگ کسی صورت توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں اکثر میاں بیوی غیر ہم آہنگی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور ان کے بچے شروع ہی سے تنائومیں گھر جاتے ہیں۔

میاں بیوی کی ناچاقی ہو تو بچوں کا نفسیاتی مریض بن جانا ایک فطری امر ہے، جس کی تمام تر ذمہ والدین پر ہوتی ہے جو آپسی اختلاف حل کرنے کے بجائے ان میں الجھتے چلے جاتے ہیں۔ بچے یہ مسائل دیکھ کر رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعد میں چڑچڑاپن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کی تعلیم پوری ہوتی ہے، اور پھر اس طرح دوران ملازمت بھی وہ ذہنی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔

معاشی مسائل ڈپریشن کے مرض کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں نوجوان خبط کا شکار ہیں۔ شہروں میں آبادی بڑھ رہی ہے اور پرتعیش لائف سٹائل کی ہوس نوجوانوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اپنا خودساختہ سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے ہرحلال اور حرام ، جائز وناجاجز طریقہ اپنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ نہ صرف یہ کہ ہمارا سماجی نظام زوال پذیر ہے، بلکہ خونی رشتے بھی خود غرضی اور مفاد پرستی کے بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں۔ 

کچھ لوگ حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، چھوٹی باتوں کو دل پر لے لیتے ہیں، ان کا ڈپریشن میں مبتلا ہونا قرین قیاس ہے۔ بے روزگاری اور دفاتر میں سینئرز کی ڈانٹ ڈپت نوجوانوں میں احساس کمتری پیدا کررہی ہے جس کا نتیجہ ڈپریشن اور ذہنی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق سو میں دس افراد ذہنی امراض کے معالجین کے پاس زیر علاج ہیں۔ سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے، گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ٹیکلنالوجی کے میدان میں وہ پیش رفت ہوئی جو پچھلے دوسوسالوں میں نہیں ہوئی۔ ایسے میں نظام زندگی ظاہری لحاظ سے بہت بہتر ہوا ہے لیکن اس کے نقصانات بھی اظہر من الشمس ہیں۔ سماجی اور معاشرتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 

آج کی نوجوان نسل اور اس کے والدین میں دوریاں بڑھنے کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہے۔ بچے ایک کلک پر یا موبائل کی ایپ پر ہر چیز کا حصول چاہتے ہیں، اپنے مقصد کو پانے کے لیے انتظار کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ جبکہ والدین اپنے پرانی روایات چھوڑنے پر تیار نہیں۔ نہ توالدین خود کو بدلنے پر اور اولاد کے موافق اپنا مزاج ڈھالنے پر راضی ہیں، اور نہ اولاد والدین کے رجحانات واحساسات کو سممجھنے کی زحمت گواراہ کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر گھر سے ایک باغی ذہن کا حامل بچہ پیدا ہورہا ہے۔    

ہفتہ، 8 مئی، 2021

بڑھتے پیٹ کو غذائوں کے ذریعہ کیسے کم کریں

بڑھتے پیٹ کے امراض 

کیا آپ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ سے پریشان ہیں؟ کیا جسم میں موجود چربی کی زیادتی آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کررہی ہے؟ اگر جواب میں ہاں ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس کا شکار ہیں۔ کم خوراکی سے لے کر جم جانے تک، چہل چدمی سے لے کر بھاری بھرکم ورزش تک لوگ مختلف قسم کے طریقے آزماتے ہیں تاکہ اس مشکل سے ان کی جان چھوٹے۔ یہ ایک اچھی سوچ ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کی جائے اور حتی الامکان وزن کو کم رکھنے کے اسباب اختیار کیے جائیں، تاہم کچھ غذائیں ایسی بھی ہیں جن کو چھوڑ دینے سے آپ اس مشکل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ 

 

آئس کریم 

آئس کریم کا سن کر منہ میں پانی آنے لگتاہے۔ یہ چھوٹے بڑے سب شوق سے کھاتے ہیں لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ اس کے آدھے کپ میں دوسوتیس کیلوریزیعنی حرارے ہوتے ہیں، جن کو جلانے اورختم کرنے کے لیے آپ کو ان تھک محنت اور ورزش کرنی پڑے گی۔ اس سے چھٹکارا حاصل کیجئے۔ 

چپس

چپس کھانے کی عادت اگر ایک حد تک ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن نقصان دہ صورتحال اس وقت پیدا ہوجاتی ہے جب لوگ اس کو خطرناک حد تک کھاتے ہیں۔ چپس کے صرف پندرہ ٹکڑوں میں ایک سوساٹھ کیلوریز ہوتی ہیں ۔ زیادہ کھائے جائیں تو ان میں موجود چکنائی اور نمک بھی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں جن کی زیادہ مقدار موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ 

چربی والا گوشت 

پیزا ماہرین کے مطابق صحت کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے، اگر اعتدال کی حد میں رہ کر کھایا جائے۔ بصورت دیگر ، اس میں چونکہ گوشت کے ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں اور وہ گوشت چربی کا حامل ہوتاہے، اس سے کیلوریز کی تعداد جسم میں کافی حد تک زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس میں موجود گوشت کے ایک ٹکڑے میں تین سو سے زیادہ کیلوریز موجود ہوتی ہیں، جن کا خاتمہ بغیر ان تھک محنت اور ورزش کے ممکن نہیں ہوگا۔ 

برگر

ایک اور پسندیدہ خوراک، جو کہ ہماری خوراک کا ایک حصہ سا بن گیا ہے، وہ برگر ہے۔ ان میں موجود کیلوریز کی تعداد برگر کے سائز کے حساب سے کم اور زیادہ ہوتی ہے۔ بڑے سائز کے برگر میں ایک سے زائد کیلوریز اور پچھتر گرام تک چکنائی کا استعمال ہوتاہے۔ ایسی خطرناک خوراک بڑی توند کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ 

درج بالا چیزوں کے علاوہ سوفٹ ڈرنکس یعنی مشروبات اور فریز کردہ غذائیں بھی انسان جسم کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مشروب کی ایک عام بوتل دوسوپچاس کیلوریز پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ فریز کردہ غذائوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر کسی ماہر کے مشورہ کے ایسی غذائوں سے اجتناب مفید رہتاہے۔ 

اگر زیادہ کھانے کا شوق ہو تو ایسی غذائوں ک انتخاب کیا جائے جو کم کیلوریز پر مشتمل ہوں، ان میں سلاد اور سبزیاں سرفہرست ہیں۔ سلاد کا استعمال کثرت سے کیجئے اور چکنائی والی غذائوں سے مکمل پرہیز کیجئے۔ ان شاء اللہ آپ توند نکلنے کی پریشانی سے جلد باہر نکل آئیں گے۔  

 

 

 

کامیاب اور خوشحال زندگی کے اصول

 کامیاب اور خوشحال زندگی کے اصول
حدیث شریف میں ہے الدین النصیحۃ، اسلام خیرخواہی کا دین ہے۔ معاشرے کے افراد جو کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں، اسلام یہ حکم دیتاہے وہ آپس میں امن سے رہیں، ایک دوسرے سے خیرخواہی کا مظاہرہ کریں، رواداری کو فروغ دیں اور اپنے اندر برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔ اگر آپ کوکسی سے ذہنی اختلاف ہے تو یہ اختلاف جنگ وجدل تک نہیں پہنچنا چاہیے، اس اختلاف کو بنیاد بناتے ہوئے بائیکاٹ اور قطع تعلق کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔

اللہ کی مخلوق کے ساتھ ادب اوراحسان کا رشتہ رکھنا انتہائی اہم ہے۔ آپس میں انس واخوت کا رشتہ ہو تو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ زندگی کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اگر تعلیمات نبوی کی روشنی میں ان اداب کو سیکھ کر زندگی بسر کی جائے تو انسان کے اندر موجود صلاحیتوں میں نکھار اور حسن پیدا ہوجاتاہے۔

اسلامی تہذیب ہمیں سکھاتی ہے کہ معاشرے کے موجود تمام افراد، بلاتمیز رنگ ونسل، یکساں ہیں، کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں۔ جبری بالادستی بغاوت کو جنم دیتی ہے اور بغاوت سے معاشرے شکست وریخت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں جن کی وجہ سے ہر شخص کی عزت، مال، اور جان کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہے۔

دوسرے سے کیسے پیش آنا ہے، اس سے پہلے اپنی شخصیت پر توجہ انتہائی ضروری ہے۔ شخصیت انسان کی آئینہ دار ہوتی ہے انسان جسطرح کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرے، وہی اس کی شخصیت ہے۔ حضور ﷺ کی پوری حیات طیبیہ اخلاق حسنہ سے عبارت ہے، ارشاد باری تعالی ہے وانک لعلی خلق عظیم۔ بلاشبہ آپ اخلاق کے اعلی مرتبہ پر فائز ہیں۔ خوش اخلاقی اپنے اندر پیدا کرنا ایک محنت والا عمل ہے، لیکن اگر اس پر محنت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں انسان بداخلاقی جیسے مرض سے چھٹکارا نہ پائے۔ اچھے اخلاق ہوں تو لوگ انسان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں، اس کے برعکس دوسروں کو حقیر سمجھنے والا اور بے اخلاقی کا رویہ رکھنے والا معاشرے کی نظر میں کمزور واقع ہوجاتاہے۔

اپنی شخصیت کو نکھارنے کے بعد، جس عمل کی قرآن وحدیث میں تاکید آئی ہے وہ والدین سے حسن سلوک ہے۔ اللہ تعالی جو کائنات کے خالق ومالک ہیں، اپنے حقوق کے ساتھ والدین کا حقوق کا جابجا تذکرہ فرماتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، والدین ہمارے اس دنیا میں آنے کا سبب ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ایک حدیث ہے، باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، نیز ارشاد ہے جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

صحیح بخاری میں ہے اللہ ر ب العزت کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے۔ والدین کے بعد معاشرے کے دوسروں لوگوں کے حقوق کا نمبر آتا ہے۔ ایک مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کو حدیث کے مطابق صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ مسلمان کو کوئی مادی فائدہ پہنچانے سے پہلے ضروری ہے اس کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہ ہوا جائے، اس کی دلجوئی کی جائے، اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے اور اس سے میل جول دوستانہ ماحول میں رکھا جائے۔ قریب ترین لوگوں میں سے پڑوسی ہوتے ہیں، ان کا خیال رکھنا ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، حدیث کے مطابق پڑوسی کا خیال رکھنے والا انسان اللہ کے نزدیک بہترین شخص ہوتاہے۔

اپنے مسلمان بھائی سے اچھا تعلق رکھنے والا انسان اسلام کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ معاشرے کا حسن اسی میں ہے کہ کسی سے تعلق توڑا نہ جائے۔ چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان اختلافات کو مقاطعہ کی شکل دینا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔

معاشرے کے امن وسکون کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لیے جن قوانین کو وضع کیا گیا ہو، ان کی پاسداری کی جائے۔ جیسے ٹریفک کے قوانین، پارکنگ کے اصول، امن وامان سے متعلق بنائے گئے اصول وضوابط وغیرہ۔

آپسی میل جول ایسا ہونا چاہیےجس سے آپس کی کدورتیں حسد کینہ وغیرہ کا خاتمہ ہوجائے۔ اسلام نے اس کا بہترین حل پیش کیا ہے کہ آپس میں سلام کیا کرو۔ سلام میں پہل کرنے والا، ایک حدیث کی روسے ، تکبرسے بری ہوتاہے۔ کثرت سے سلام دلوں کی نفرتیں ختم کرتاہے، حسد کا منشا بے جااحساس برتری ہے اور اس احساس برتری کوختم کرنے کا تیر بہدف نسخہ سلام میں پہل کرنا ہے۔

زندگی سے لطف اٹھانا یقیناہرشخص کا حق ہے، ایک کامیاب زندگی بسر کرنا ہر ایک کا خواب ہے۔ اپنی زندگی کو پرلطف اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے ہم اخلاق حسنہ سے مزین ہوں اور کامیابی کے اصول وضوابط سے واقف ہوں۔

جمعہ، 7 مئی، 2021

امیر اور غریب طبقہ کے لیے زکوۃ کی ضرورت واہمیت


اسلام کے اہم ترین ارکان میں زکوۃ کا شمار ہوتاہے۔ نماز کے بعد اگر کسی نیک عمل کا درجہ ہے تو وہ زکوۃ ہے۔ قرآن کریم میں مختلف جگہوں میں زکوۃ کا ذکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ زکوۃ کے لغوی معنی میں پاک ہونے اور نشونما کا مفہوم پایاجاتاہے۔ یہ ایک مالی عبادت ہے، اس سے نہ صرف ناداروں اور مفلسوں کی کفالت ہوتی ہے بلکہ دل اور نفس کو بھی بے حد اطمینان حاصل ہوتاہے۔


ہمیں ہرحال میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس شکر کا طریقہ یہ بھی ہے اللہ تعالی کی نعمتیں بندوں پر خرچ کی جائیں۔ سورہ تغابن میں ارشاد باری ہے اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو تو وہ تم کو دوگنادے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اس کے مقابلے میں سورہ توبہ میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے وعید بھی آئی ہے۔ کہ جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ خرچ نہیں کرتے ان کودرد ناک عذاب کی خوشخبری سنادیجئے۔

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا زکوۃ کی ادائیگی ہو تو یہ مزید نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے، اگر زکوۃ ادا نہ کی جائے تو انجام خسارے کی صورت میں نکلتاہے۔

زکوۃ کی ادائیگی کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان یہ پیش نظر رکھتا ہے میرا مال میرا نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے دی ہوئی ایک امانت ہے۔ یہ سوچ ہو تو انسان معاشی بے راہ روی اور بے اعتدالی سے بچ جاتاہے۔ فضول خرچی اور غیر ضروری کاموں میں اپنا مال ضائع نہیں کرتا۔

اگرچہ مال اللہ کی ملکیت ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے ایسے شخص کو جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے، اس کے خرچ کو قرض فرمایا ہے کہ یہ بندہ مجھے قرض دے رہا ہے اور میں اس کو بڑھا چڑھا کرکے واپس کرونگا، اس کی مغفرت کرونگا۔

ملک میں غربت کے بہت سے اسباب ہیں، جیسے مہنگائی، بے روزگاری، ملک کی غیر مستحکم صورتحال وغیرہ۔ لیکن شاید ہم ایک بات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسلام میں زکوۃ کا جوحکم ہے اس کے فوائد میں ایک فوری فائدہ غربت کے خاتمے پر منتج ہوتاہے۔

لوگ زکوۃ ادا کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہیں، اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسے زکوۃ کے مسائل سے ناواقفی، مال کی محبت۔ زکوۃ کے مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی زکوۃ ضائع کردیتے ہیں یا پھر زکوۃ ادا ہی نہیں کرتے۔ اس طرح غیر ضروری طور پر مال سے محبت بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے

مختلف ملکوں نے غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے پروگرام شروع کررکھے ہیں، جن سے وقتی اور جزوی طور پر کچھ کامیابی بھی انہیں حاصل ہوئی ہے۔ لیکن مستقل بنیادوں پر غربت کا خاتمہ اسلام کے نظام زکوۃ سے ہوسکتاہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اگر صحیح طریقے سے زکوۃ ادا کی جائے تو اس کے دوررس اور اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ روزگار فراہم کرنا اور صنعتیں قائم کرکے لوگوں کو مزدوری فراہم کرنا بھی ایک مثبت سوچ ہے، لیکن زکوۃ کی ادائیگی جو صاحب استطاعت لوگوں کا فریضہ ہے، اس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔  

زکوۃ ادا نہ کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، اس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ دنیا کی سزا کے علاوہ جو اس کی اخروی سزا ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔  

زکوۃ ایک ایسا نظام ہے جس میں دولت کا دھارا امیر طبقے سے غریب طبقے کی طرف مڑجاتاہے اور دولت چند ہاتھوں میں محدود ہونے کےبجائے گردش میں آجاتی ہے۔ اس سے نہ صرف غریب کی معاشی حالت درست ہوجاتی ہے بلکہ معاشرے میں ایک حد تک توازن پیدا ہوجاتاہے اور لوگ احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جتے ہیں، غریب کی تخلیقی صلاحیتیں کام کرنا شروع کردیتی ہیں۔ جب وہ معاشی طور پر پرسکون ہوگا تو وہ معاشرے کو اپنی خدمات بہتر انداز میں پیش کرسکے گا۔

مال کی حیثیت جسم میں خون کی سی ہے۔ خون گردش کرتا ہے تو دل اور باقی اعضاء درست طریقے سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ حالت جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح مال اگر صرف امیر ہاتھوں میں محدود رہے تو کئی مفاسد جنم لیتے ہیں، لیکن اگر گردش کرتا رہے، غریبوں کی ضروریات اس مال سے پوری ہوتی رہیں تو معاشرہ صحت مند اور اخلاق یافتہ رہتاہے۔     

زکوۃ نہ دینے سے صرف غریبوں کا نقصان نہیں ہوتا، بلکہ امیروں کے لیے بھی کافی نقصان دہ ہے۔ غریب اگر غریب تر ہوتا جاےگا تو امیر کئی اخلاقی بیماریوں اور عیاشی میں مبتلا ہوتے جائیں گے۔ غریب ان سے حسد کرتے رہیں گے اور امیر غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
محمد سلمیان
 

جمعرات، 6 مئی، 2021

چین کی ڈیجیٹل کرنسی - ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟

چین نے امریکہ کی بالادستی ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ وہ ہرمیدان میں اپنی سبقت رکھنے کے لیے ان تھک محنت کررہا ہے۔ عنقریب وہ ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروانے کی کوششوں میں ہے جس کو مرکزی بینک کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہوگی۔

رقوم کی منتقلی کا معاملہ ہو تو بے شمار کریڈٹ کارڈز اور پے منٹ ایپس وجود میں آچکی ہیں، جن کی بدولت کسی حد تک کیش سے چھٹکارا حاصل ہوچکا ہے۔ بٹ کوائن سمیت بے شمار کرپٹوکرنسیاں اقوام عالم کو اپنے حصار میں لے رہیں ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں نہ تو ان کی حمایت کرتی ہیں اورنہ یہ کرنسیاں عالمی مالیاتی نظام کا حصہ بن سکیں ہیں۔ لوگ اپنے طور پر ان کے ذریعہ ادائیگیاں کرتے ہیں، یوں بغیر کسی جغرافیائی سرحد کے لوگ اپنے کاروبار اسی سے چلارہے ہیں۔

چین نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ لیا ہے۔ عوام خفیہ طریقے سے ادائیگی کرنا چاہتی ہے، جو کسی حکومت کے کنٹرول میں نہ آسکے، چین ایک ایسی ہی ڈیجیٹل کرنسی کے اجراء کی طرف گامزن ہے، جس میں کافی حد تک لوگ بن کوائن پر انحصار کرنا چھوڑ دیں گے۔

چین کے مرکزی بینک اس کرنسی میں بطور خاص اس بات کا خیال رکھے گا کہ یہ سستی بھی ہو اور اس سے ادائیگی کا عمل اتنا ہی تیز ہو جیسا کہ دیگر کرپٹوکرنسیوں کا حال ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوشش بھی جاری ہےکہ ڈالر کی بالادستی دنیا میں ختم یا کم کی جاسکے ، لہذا رئیل ٹائم میں لوگوں کے لین دین کو جاننے کے ساتھ ساتھ، یہ کرنسی چین کے مرکزی مالیاتی نظام سے بھی منسلک ہوگی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکومت بھی کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دے، تاکہ لوگوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہو۔ بہت سے غیرملکی کلائنٹس جو پاکستانی ماہرین کو ورچول اورآن لائن ملازمت دینے کو تیار ہیں، ادائیگی کے معاملے میں پریشان ہیں۔ پاکستانی  ماہرین سے ان کے ساتھ کام کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ رقم کی منتقلی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بٹ کوائن میں اگر ادائیگی ہوتی ہے تو پاکستانی بینک ان سے نجی نوعیت کے سوالات کرکے ، مہارت رکھنے والے نوجوانوں کا حوصلہ پست کردیتے ہیں۔

کرپٹوکرنسی میں ادائیگی قانونی ہوجاتی ہے، تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے سرمایہ ایک محفوظ جگہ پر رکھ سکیں گے۔ سونے اور چاندی کی طرح اس کی قدر بھی اضافہ ہوتا رہے گا، اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے میں بھی یہ ایک مددگار طریقہ ہے۔ لوگ اپنا سرمایہ محفوظ رکھنے کے لیے جائیداد وغیرہ خریدتے ہیں، جو کہ ایک لمبا اور پیچیدہ عمل ہے۔ کرپٹوکرنسی میں سرمایہ محفوظ رکھنا ایک آسان طریقہ ہے، جس میں سوائے ایک ای میل اکاونٹ کے، اور کسی مشکل اور پیچیدہ عمل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں ، اس کی سیکورٹی اور حفاظت بھی شاندار ہوتی ہے۔ اکثر کرپٹوکرنسی کے واکاونٹس انتہائی محفوظ ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کے ایک سے زائد طریقے ہوتے ہیں۔

بدھ، 5 مئی، 2021

خود پسندی کیا ہے؟ خود اعتمادی، دکھاوا یاعدم تحفظ؟َ


ہم اکثر دیکھتے اور سنتے ہیں کہ فلاں شخص خودپسندی کا شکار ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی یہ تکبر کے زمرے میں آتاہے؟ کیا واقعی اس کو ایک دکھاوے کے طور پر لینا چاہیے ۔ کیا ایسا شخص عدم تحفظ کا شکار ہے اور اپنی اسی حالت کا چھپانے کے لیے وہ خود پسندی کا سہارا لیتاہے؟ ایسے شخص کے لیے ہمارے معاشرے میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو اس کو صرف اپنے بارے میں سوچنے والا اور مطلب پرست گردانتے ہیں جسے اپنے سواکچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اپنا مطلب نکالتے کے لیے وہ کسی حد تک بھی جاسکتاہے۔ بھلے کسی کا نقصان ہوجائے، اسے اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہی خود اعتمادی ہے جو کامیابی کی کنجی ہے۔ ان سب چیزوں میں نہایت باریک فرق ہے، کہ خودپسندی، تکبر، مطلب پرستی دکھاوا، سب ایک ہی چیز ہے یا کچھ باتیں ہیں جو ان میں فرق کی نشاندہی کرتی ہیں۔ کسی بھی شخص کو جو ایسی خصلتوں کا حامل ہو، فورا ہمیں نظرانداز کرنا چاہیے یا اس کے بارے کوئی نظریہ قائم کرنے سے پہلے اس کے حالات جاننے چاہیں کہ اگر اس میں تکبر ہے تو کیا وجہ اور اگر وہ خود اعتمادی کا حامل ہیں تو کونسے ایسے اسباب ہیں ،جو اس نے اختیار کیے اور آج معاشرے میں اس کی ایک الگ حیثیت ہے۔

خود اعتماد لوگ کبھی کسی سے تعریف کے خواہاں نہیں ہوتے۔ انہیں یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی ان کی پیٹھ تھپتھپائے اور انہیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے۔ وہ اپنی راہیں خود متعین کرتےہیں۔ کوئی ان کی تعریف کرے یا تنقیص ، انہیں فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے بارے میں کنفیوزڈ بھی نہیں ہوتے۔ احساس کمتری اور عدم تحفظ کا احساس ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ وہ شیخی بگھارنے کے بجائے، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

دوسروں کو متاثر کرنے کی دھن میں مگن رہنا بھی کوئی خوشگوار عادت نہیں ہے۔ ہر وقت یہ فکر کہ کیسے میں اپنی دھاک بٹھالوں، انسان سے بہت سی غلطیاں کرواتی ہے۔ ہر انسان اپنی ایک فطرت رکھتا ہے، اسی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کام کیا جائے تو بہت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ متاثرکرنے کی فکر سے بے نیاز افراد حقیقت میں دنیا کو متاثر کرسکتے ہیں، اور یہی فکر لیے لوگ میدان میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اپنے کو یہ باورکرانا کہ ہم دوسروں سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک  ہیں، بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں ، کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر انسان میں واقعی صلاحیت موجود ہو تو باور کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس چیز کا ادراک خود ہی لوگوں کو ہوجاتاہے اگر نتائج دینے میں پرعزم ہوں۔

اوورایکٹنگ کرنے والے کردار ناکام ہوجاتے ہیں اور حقیقی اور فطری طور پر ایکٹ کرنے والے دلوں میں ہمیشہ کے لیے گھر کرجاتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ سمارٹ بننا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

خود پسندی اور پراعتمادی کو یکجانہیں کرنا چاہیے، خودپسندی اپنے آپ کو دھوکہ دینے پر منتج ہوتی ہے، جبکہ پراعتمادی سے انسان مثبت اور تعمیری کا موں پر تعاون حاصل کرتاہے۔
   

منگل، 4 مئی، 2021

ویب سائٹ یا بلاگ پر کیسا مواد لکھیں؟


ایک ویب سائٹ یا بلاگ بنانے کا ارادہ کرلینے کے بعد، سب سے پہلا سوال جو ایک لکھاری کے ذہن میں گردش کرتاہے، یہ ہے کہ کس موضوع پر لکھا جائے۔ بہت سے آئیڈیاز ہوتے ہیں جن پر لکھا جاسکتاہے، لیکن اہم چیز ایسا  مواد ہے جو آپ کے قارئین کو جوڑے رکھے، انہیں بار بار آپ کے بلاگ پر آنے پر مجبور کرے ۔ ایک غلط فہمی جو اکثر بلاگرز کو رہتی ہے ،  یہ ہے کہ صرف تحریری مواد بلاگر کے کامیاب ہونے کے ضروری ہے۔ وڈیو مواد اپنی الگ شناخت رکھتا ہے جس کو استعمال کرنا دانشمندی اور وقت کا تقاضہ ہے۔

اگر آپ وڈیو مواد اپنے بلاگ پر ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک اچھاٹائٹل منتخب کیجئے، بھرپور ڈسکرپشن لکھئے اور ہوسکتے تو وڈیو میں تحریری مواد کو شامل کرنا مت بھولئے۔وڈیو کا نام بھی سوچ سمجھ کررکھئے جو کہ وڈیوکے مواد سے مکمل مطابقت رکھتا ہو۔

اگر تحریری مواد ڈالنا ہو تو دانشمندی یہ ہے کہ متعلقہ تصاویر، جو کاپی رائٹ نہ ہوں ، ضرور استعمال کیجئے۔ یہ چیز قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہے اور وہ آپ کے بلاگ پر زیادہ وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تصویر کے لیے نام منتخب کرنا بھی اہم ہے، کوئی عام سا نام رکھنے کے بجائے ، ایسا نام ہو جو اس تصویر سے مطابقت رکھتا ہو۔

آج کل سیکھنے کا رجحان زیادہ ہے۔ وہ مضامین بلاگ کے لیے زیادہ کامیاب اور مفید رہتے ہیں جس میں آپ کچھ سکھانے کی کوشش کررہے ہوں۔ دوران تحریر متعلقہ وڈیوز پوسٹ کرنا آپ کی تحریرکی افادیت کو بڑھا دیتاہے۔

کچھ سکھانے والے مضامین پر ادھر ادھر کی باتوں سے پرہیز ازحد ضروری ہے۔ اس قسم کے مضمون کو پڑھنے والے شغل میلہ والے نہیں بلکہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر موضوع کے تحت رہتے ہوئے آپ اپنا مضمون ڈالیں گے تو امید ہے قارئین زیادہ دیر آپ کے بلاگ پر ٹک پائیں گے اور کہیں اور جانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔

متنازعہ موضوعات بلاگ پر لکھنے سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔ اس سے وقتی فائدہ ضرورہوتاہے کہ ایک دم سے قارئین کا سیلاب امڈ آتاہے۔ لیکن یہ موضوعات سدابہار نہیں ہوتے ۔ کوشش کیجئے ایسے موضوعات پر لکھئے جن کی افادیت ہر زمانے میں رہتی ہے۔
مضمون لکھتے وقت لسٹ بنانا بھی اہم ہے۔ ذیلی عنوانات دینے سے پڑھنے والے کی آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا اور وہ جڑا رہتاہے۔ اس کے برعکس تحریر کا بے ربط مواد پڑھنے والے کو کہیں اور جانے پر مجبور کرسکتاہے اور یوں آپ اپنے قارئین سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوسکتے ہیں۔
اپنے بلاگ کے لیے آپ کسی پروڈکٹ یعنی کمپنی کی مصنوعات کا تعارف لکھنا چاہیں تو اس سے آپ ایک آمدن کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔ مختلف کمپنیاں چاہتی ہیں کہ ان کی مصنوعات کا تعارف کرایا جائے، آپ ان سے معاہد ہ کرسکتے ہیں اور اس طرح لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا روزگار بھی کماسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ بلاگ پر اگر آپ لوگوں کے مسائل حل کرنا چاہیں تو اس سے قارئین کو حوصلہ ملے گا اور وہ آپ کے بلاگ پر روزانہ کی بنیاد پر آنا ضروری سمجھیں گے۔ دنیا مسائل سے بھری پڑی ہے، مسائل کی نشاندھی کیجئے اور ان کا ممکنہ حل بتائیے۔

کامیابی کسےکہتےہیں؟ زندگی میں کامیاب کیسےہواجائے؟


کامیابی ہرایک شخص کے لحاظ سےمختلف  ہوتی ہے۔ کچھ دولت کو، کچھ طاقت کو کامیابی تصور کرتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک دنیا پراپنا مثبت اثر ڈالنا  کامیابی کہلاتا ہے۔ یہ سب تصورات اپنی جگہ درست ،لیکن حقیقت یہ ہے کامیابی کا تصور ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ہر شعبہ کا شخص کامیاب ہونے کے لیے اپنے شعبہ میں نمایاں کارگردگی کامظاہرہ کرنے کو کامیابی گردانتا ہے۔ قطع نظر کہ آپ کامیابی کس چیز کو سمجھتے ہیں، کامیابی کا تصور سمجھنا ایک مشکل امر ہے۔ بےشمارکتابیں  اور مواداس بارے میں موجود ہے کہ کامیابی کیسے حاصل کی جائے، لیکن کتابیں انفرادی طور پر آپ کو کامیابی کے راستے پر گامزن نہیں کرسکتیں۔ اس کے لیے آپ کو خود اپنی راہ طے کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے کتابوں کے پیچھے پڑ کرکامیابی کے راستے ڈھونڈنا اور لکیر کا فقیر بننا کبھی سود مند ثابت نہیں ہوتا۔
کامیابی کا پہلا فارمولا بڑی سوچ ہے۔ آپ جتنا بڑا سوچیں گے اتنے ہی زندگی میں کامیابی کے زینے طے کرتے جائیں گے۔ چھوٹی سوچ ایک محدود دائرے میں آپ کو بند رکھے گی۔ دنیا میں جتنے بڑے کامیاب انسان گزرے ہیں، سب بڑی سوچ کے حامل تھے اور رہتی دنیا تک لو گ ان کی ایجادات اور تجربات سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ انہوں نے بڑی سوچ اپنا کر مشکل فیصلے کیے اور دنیا کے لیے آسانی کا سامان کرگئے۔ اگروہ چھوٹا سوچتے تو دنیا کواتنامستفید نہ کرپاتے جتنا انہوں نے کیا۔
کام سے لگن ہو تو خواب پورے ہوسکتے ہیں۔ تن آسانی اور کامیابی کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اپنا ٹارکٹ اور مقصد متعین کیجئے اور اس کو حاصل کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کردیجئے۔ ایک اصول ذھن نشین کیجئے کہ کیا تب بھی آپ وہ کام کریں گے اگر آپ کو اس کے لیے ادائیگی نہ کی جائے؟ اگر جواب ہاں ہے تو سمجھ لیجئے آپ کامیابی کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ اگر آپ موجود ہ کام سے مطمئن نہیں ہیں اور اس کام میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں ، تو مشکل ہے آپ کا شمار کامیاب لوگوں میں ہو۔ اس کے بجائے ایسا کام کیجئے جس کے آپ کو طبعی دلچسپی ہو ۔ یہ چیز آپ کو اپناکام جاری رکھنے میں مدد دے گی ۔ تاریخ میں کئی کامیاب لوگ ایسے مل جاتے ہیں جنہوںنے سالوں اپنا کام جاری رکھا، اور اس بات کی پروا نہیں کی کہ انہیں اس کا م کا کتنا معاوضہ ملتاہے یا ملتا بھی ہے کہ نہیں۔
ناکامی سے گھبرانا بھی ایک پریشان کن صورتحال ہے جو آپ کو کامیابی کی طرف گامزن ہونے سے روکتی ہے۔ یہ یقین رکھئے کہ ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہے۔ شاذ ونادر ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے کامیابی سے پہلے ناکامی کا منہ نہ دیکھاہو۔ ناکامی آپ کو اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس سے گھبرانے کے بجائے اس کو اپنا استاد سمجھئے۔ غلطی اور ناکامی آپ کو سکھاتی ہے کہ آئندہ آپ نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ایک مرتبہ ناکام ہونے کے بعد اگر چھوڑ دیں تو کبھی کامیابی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ تحریر یہ ہے کہ کامیابی کا کوئی آسان نسخہ دستیاب نہیں ہے۔ مسلسل اور ڈھنگ والی محنت آپ کو اپنے شعبہ میں کامیاب کراسکتی ہے۔ مخلص کامیاب دوستوں کی مجلس میں بیٹھئے ، اپنا وقت ضائع کرنے سے اجتناب کیجئے اپنا ٹارگٹ متعین کیجئے اور اللہ تعالی پر توکل کرکے مگن کے ساتھ کام کیجئے۔

Earn money online through your mobile