ہفتہ، 29 مئی، 2021

بڑھاپے کی مشکلات کیسے حل کریں؟

انسان بسا اوقا جوانی اور وسائل کے بل بوتے پر فرعون بن جاتاہے اور وہ یہ بھول جاتاہے کہ ایک دن جوانی نے زائل ہوجانا ہے اور یہ رعنائیاں اور سہولیات کافور ہوجائیں گی۔ ایسے میں ایک تو انسان کو تواضع اختیار کرنی چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ جوانی کی دہلیز پار کرنے والوں کا خیال رکھے۔

بڑھاپا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے ہر انسان جو بقید حیات ہو، گزرتا ہے۔ یہ پوچھ کر نہیں آتا اور نہ ہی دھکے دینے سے اس سے جان چھوٹتی ہے۔ اس کا اثر بھی فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اپنا اثر دکھاتاہے۔ بڑھاپا مسلسل عمل کا نام نہیں بلکہ دھیرے دھیرے اور کبھی وقفے سے نمودار ہوتاہے۔ اس کے مضر اثرات بسااوقات جلدی ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی سالوں تک انسان بڑھاپے کے زیر اثر نہیں آتا بلکہ زندگی کا ایک لمباعرصہ اچھی صحت کے ساتھ گزارتاہے اگرچہ شمار میں اس کی عمر کافی زیادہ ہو۔

بڑھاپے کے ظہور کا عمل مردوں اور عورتوں میں بھی یکساں نہیں ہوتا۔ بسااوقات مردوں میں بڑھاپے کی رفتار تیز ہوتی ہے اور کبھی عورتیں اس کا شکار جلدی ہوتی ہیں۔ نیز انسان کے اندرونی اعضاء بھی اس سے یکساں متاثر نہیں ہوتے۔ جگر دیگر اعضاء کے مقابلے میں جلد بڑھاپے کی زد میں آتاہے اور نسبتا جلدی اپنا اثر دکھانا کم کردیتاہے۔ بڑھاپے کے ساتھ انسان کے تمام اعضاء اپنا اثر دکھانا یا کم کردیتے ہیں یا بالکل چھوڑدیتے ہیں۔ مثلا بینائی روزبروز متاثر ہوتی ہے، قوت سماعت میں خلل آنا شروع ہوجاتا ہے، اس طرح دیگر اعضاء کا حال ہے۔

بوڑھے افراد ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں، عمررسیدگی چڑچڑے پن کا بھی باعث بنتی ہے، لہذا افراد خانہ ان کی باتوں سے پریشان نہ ہوا کریں، انہیں توجہ دیں اور ان کو احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچائیں۔ ان کی تند وتیز باتوں کا جواب تیزطریقے سے دینے سے بجائے تحمل سے پیش آنا ضروری ہے۔

زندگی کے اس تیز سفر میں اولاد کو چاہیے اپنے بوڑھے والدین کے لیے وقت نکالیں، ان سے گفتگوکریں تاکہ وہ وحشت اور تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ اولاد اگر اپنے پائوں پر کھڑی ہے تو والدین کو اطمینان ہوتاہے، لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو والدین بیک وقت بڑھاپے اور فکر معاش دونوں سے لڑرہے ہوتے ہیں۔

اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے دوسرے شہروں میں آباد ہوجاتے جہاں زندگی کی سہولیات نسبتا اچھی ہوتی ہیں یا وہ اس جگہ ملازمت کرتے ہیں جہاں مشاہرہ اچھا ہوتاہے اور اپنے بوڑھے والدین کو دیہات میں چھوڑ دیتے ہیں۔ مجبورا ریٹائرمنت کے بعد بھی انہیں فکر معاش لاحق ہوتی ہے اور اپنی گزربسر کے لیے وہ کوئی کارروزگار ڈھونڈنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسے میں اولاد کا فرض ہے کہ وہ والدین کو تنہا نہ چھوڑیں، ان کا ہرلحاظ سے خیال رکھیں تاکہ وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔

بڑھاپے کے زیر اثر آنے سے پہلے انسان کو خود بھی اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ مفید طبی غذائیں اور زندگی میں توازن رکھنا بڑھاپے کے اثرات بد کو زائل کرنے کے لیے معاون ثابت ہوسکتاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Earn money online through your mobile