ہفتہ، 8 مئی، 2021

کامیاب اور خوشحال زندگی کے اصول

 کامیاب اور خوشحال زندگی کے اصول
حدیث شریف میں ہے الدین النصیحۃ، اسلام خیرخواہی کا دین ہے۔ معاشرے کے افراد جو کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتے ہوں، اسلام یہ حکم دیتاہے وہ آپس میں امن سے رہیں، ایک دوسرے سے خیرخواہی کا مظاہرہ کریں، رواداری کو فروغ دیں اور اپنے اندر برداشت کا حوصلہ پیدا کریں۔ اگر آپ کوکسی سے ذہنی اختلاف ہے تو یہ اختلاف جنگ وجدل تک نہیں پہنچنا چاہیے، اس اختلاف کو بنیاد بناتے ہوئے بائیکاٹ اور قطع تعلق کی نوبت نہیں آنی چاہیے۔

اللہ کی مخلوق کے ساتھ ادب اوراحسان کا رشتہ رکھنا انتہائی اہم ہے۔ آپس میں انس واخوت کا رشتہ ہو تو معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے۔ زندگی کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اگر تعلیمات نبوی کی روشنی میں ان اداب کو سیکھ کر زندگی بسر کی جائے تو انسان کے اندر موجود صلاحیتوں میں نکھار اور حسن پیدا ہوجاتاہے۔

اسلامی تہذیب ہمیں سکھاتی ہے کہ معاشرے کے موجود تمام افراد، بلاتمیز رنگ ونسل، یکساں ہیں، کسی کو دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں۔ جبری بالادستی بغاوت کو جنم دیتی ہے اور بغاوت سے معاشرے شکست وریخت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں جن کی وجہ سے ہر شخص کی عزت، مال، اور جان کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہے۔

دوسرے سے کیسے پیش آنا ہے، اس سے پہلے اپنی شخصیت پر توجہ انتہائی ضروری ہے۔ شخصیت انسان کی آئینہ دار ہوتی ہے انسان جسطرح کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرے، وہی اس کی شخصیت ہے۔ حضور ﷺ کی پوری حیات طیبیہ اخلاق حسنہ سے عبارت ہے، ارشاد باری تعالی ہے وانک لعلی خلق عظیم۔ بلاشبہ آپ اخلاق کے اعلی مرتبہ پر فائز ہیں۔ خوش اخلاقی اپنے اندر پیدا کرنا ایک محنت والا عمل ہے، لیکن اگر اس پر محنت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں انسان بداخلاقی جیسے مرض سے چھٹکارا نہ پائے۔ اچھے اخلاق ہوں تو لوگ انسان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں، اس کے برعکس دوسروں کو حقیر سمجھنے والا اور بے اخلاقی کا رویہ رکھنے والا معاشرے کی نظر میں کمزور واقع ہوجاتاہے۔

اپنی شخصیت کو نکھارنے کے بعد، جس عمل کی قرآن وحدیث میں تاکید آئی ہے وہ والدین سے حسن سلوک ہے۔ اللہ تعالی جو کائنات کے خالق ومالک ہیں، اپنے حقوق کے ساتھ والدین کا حقوق کا جابجا تذکرہ فرماتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، والدین ہمارے اس دنیا میں آنے کا سبب ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ ایک حدیث ہے، باپ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، نیز ارشاد ہے جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

صحیح بخاری میں ہے اللہ ر ب العزت کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے۔ والدین کے بعد معاشرے کے دوسروں لوگوں کے حقوق کا نمبر آتا ہے۔ ایک مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کو حدیث کے مطابق صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ مسلمان کو کوئی مادی فائدہ پہنچانے سے پہلے ضروری ہے اس کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہ ہوا جائے، اس کی دلجوئی کی جائے، اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے اور اس سے میل جول دوستانہ ماحول میں رکھا جائے۔ قریب ترین لوگوں میں سے پڑوسی ہوتے ہیں، ان کا خیال رکھنا ایک اعلی اخلاقی صفت ہے، حدیث کے مطابق پڑوسی کا خیال رکھنے والا انسان اللہ کے نزدیک بہترین شخص ہوتاہے۔

اپنے مسلمان بھائی سے اچھا تعلق رکھنے والا انسان اسلام کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ معاشرے کا حسن اسی میں ہے کہ کسی سے تعلق توڑا نہ جائے۔ چھوٹی موٹی باتوں پر اختلاف ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان اختلافات کو مقاطعہ کی شکل دینا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔

معاشرے کے امن وسکون کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لیے جن قوانین کو وضع کیا گیا ہو، ان کی پاسداری کی جائے۔ جیسے ٹریفک کے قوانین، پارکنگ کے اصول، امن وامان سے متعلق بنائے گئے اصول وضوابط وغیرہ۔

آپسی میل جول ایسا ہونا چاہیےجس سے آپس کی کدورتیں حسد کینہ وغیرہ کا خاتمہ ہوجائے۔ اسلام نے اس کا بہترین حل پیش کیا ہے کہ آپس میں سلام کیا کرو۔ سلام میں پہل کرنے والا، ایک حدیث کی روسے ، تکبرسے بری ہوتاہے۔ کثرت سے سلام دلوں کی نفرتیں ختم کرتاہے، حسد کا منشا بے جااحساس برتری ہے اور اس احساس برتری کوختم کرنے کا تیر بہدف نسخہ سلام میں پہل کرنا ہے۔

زندگی سے لطف اٹھانا یقیناہرشخص کا حق ہے، ایک کامیاب زندگی بسر کرنا ہر ایک کا خواب ہے۔ اپنی زندگی کو پرلطف اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے ہم اخلاق حسنہ سے مزین ہوں اور کامیابی کے اصول وضوابط سے واقف ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Earn money online through your mobile