جمعہ، 7 مئی، 2021

امیر اور غریب طبقہ کے لیے زکوۃ کی ضرورت واہمیت


اسلام کے اہم ترین ارکان میں زکوۃ کا شمار ہوتاہے۔ نماز کے بعد اگر کسی نیک عمل کا درجہ ہے تو وہ زکوۃ ہے۔ قرآن کریم میں مختلف جگہوں میں زکوۃ کا ذکر نماز کے ساتھ کیا گیا ہے۔ زکوۃ کے لغوی معنی میں پاک ہونے اور نشونما کا مفہوم پایاجاتاہے۔ یہ ایک مالی عبادت ہے، اس سے نہ صرف ناداروں اور مفلسوں کی کفالت ہوتی ہے بلکہ دل اور نفس کو بھی بے حد اطمینان حاصل ہوتاہے۔


ہمیں ہرحال میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس شکر کا طریقہ یہ بھی ہے اللہ تعالی کی نعمتیں بندوں پر خرچ کی جائیں۔ سورہ تغابن میں ارشاد باری ہے اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو تو وہ تم کو دوگنادے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اس کے مقابلے میں سورہ توبہ میں زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے وعید بھی آئی ہے۔ کہ جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ خرچ نہیں کرتے ان کودرد ناک عذاب کی خوشخبری سنادیجئے۔

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا زکوۃ کی ادائیگی ہو تو یہ مزید نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے، اگر زکوۃ ادا نہ کی جائے تو انجام خسارے کی صورت میں نکلتاہے۔

زکوۃ کی ادائیگی کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان یہ پیش نظر رکھتا ہے میرا مال میرا نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے دی ہوئی ایک امانت ہے۔ یہ سوچ ہو تو انسان معاشی بے راہ روی اور بے اعتدالی سے بچ جاتاہے۔ فضول خرچی اور غیر ضروری کاموں میں اپنا مال ضائع نہیں کرتا۔

اگرچہ مال اللہ کی ملکیت ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے ایسے شخص کو جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے، اس کے خرچ کو قرض فرمایا ہے کہ یہ بندہ مجھے قرض دے رہا ہے اور میں اس کو بڑھا چڑھا کرکے واپس کرونگا، اس کی مغفرت کرونگا۔

ملک میں غربت کے بہت سے اسباب ہیں، جیسے مہنگائی، بے روزگاری، ملک کی غیر مستحکم صورتحال وغیرہ۔ لیکن شاید ہم ایک بات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اسلام میں زکوۃ کا جوحکم ہے اس کے فوائد میں ایک فوری فائدہ غربت کے خاتمے پر منتج ہوتاہے۔

لوگ زکوۃ ادا کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہیں، اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسے زکوۃ کے مسائل سے ناواقفی، مال کی محبت۔ زکوۃ کے مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی زکوۃ ضائع کردیتے ہیں یا پھر زکوۃ ادا ہی نہیں کرتے۔ اس طرح غیر ضروری طور پر مال سے محبت بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے

مختلف ملکوں نے غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے پروگرام شروع کررکھے ہیں، جن سے وقتی اور جزوی طور پر کچھ کامیابی بھی انہیں حاصل ہوئی ہے۔ لیکن مستقل بنیادوں پر غربت کا خاتمہ اسلام کے نظام زکوۃ سے ہوسکتاہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اگر صحیح طریقے سے زکوۃ ادا کی جائے تو اس کے دوررس اور اچھے نتائج برآمد ہونگے۔ روزگار فراہم کرنا اور صنعتیں قائم کرکے لوگوں کو مزدوری فراہم کرنا بھی ایک مثبت سوچ ہے، لیکن زکوۃ کی ادائیگی جو صاحب استطاعت لوگوں کا فریضہ ہے، اس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔  

زکوۃ ادا نہ کرنے کی وجہ کچھ بھی ہو، اس کی سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ دنیا کی سزا کے علاوہ جو اس کی اخروی سزا ہے، اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔  

زکوۃ ایک ایسا نظام ہے جس میں دولت کا دھارا امیر طبقے سے غریب طبقے کی طرف مڑجاتاہے اور دولت چند ہاتھوں میں محدود ہونے کےبجائے گردش میں آجاتی ہے۔ اس سے نہ صرف غریب کی معاشی حالت درست ہوجاتی ہے بلکہ معاشرے میں ایک حد تک توازن پیدا ہوجاتاہے اور لوگ احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچ جتے ہیں، غریب کی تخلیقی صلاحیتیں کام کرنا شروع کردیتی ہیں۔ جب وہ معاشی طور پر پرسکون ہوگا تو وہ معاشرے کو اپنی خدمات بہتر انداز میں پیش کرسکے گا۔

مال کی حیثیت جسم میں خون کی سی ہے۔ خون گردش کرتا ہے تو دل اور باقی اعضاء درست طریقے سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ حالت جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح مال اگر صرف امیر ہاتھوں میں محدود رہے تو کئی مفاسد جنم لیتے ہیں، لیکن اگر گردش کرتا رہے، غریبوں کی ضروریات اس مال سے پوری ہوتی رہیں تو معاشرہ صحت مند اور اخلاق یافتہ رہتاہے۔     

زکوۃ نہ دینے سے صرف غریبوں کا نقصان نہیں ہوتا، بلکہ امیروں کے لیے بھی کافی نقصان دہ ہے۔ غریب اگر غریب تر ہوتا جاےگا تو امیر کئی اخلاقی بیماریوں اور عیاشی میں مبتلا ہوتے جائیں گے۔ غریب ان سے حسد کرتے رہیں گے اور امیر غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
محمد سلمیان
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Earn money online through your mobile