ملک عزیز پاکستان گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ جسمانی عوارض میں مبتلا افرادکی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن ان عوارض میں شامل ہے جن کے بڑھنے کی رفتار حیران کن حد تک تیز ہے۔ ویسے تو اس کا شکار افراد ہر عمر اور ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن زیادہ تر افراد نوجوان ہیں۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں نوٹ کی گئی ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی شرح بائیس سے ساٹھ فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ کم آبادی کے شہروں اور دیہاتوں میں یہ صورتحال کنٹرول میں ہے لیکن جو شہر زیادہ آبادی والے ہیں جیسے لاہور کراچی وغیرہ ان میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔ فی الحال پاکستان ذہنی مریضوں کی درجہ بندی میں اتنا آگے نہیں ہے، لیکن جس طرح مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس تناسب سے 2050 تک عالمی درجہ بندی میں پاکستان چھٹے نمبر پر آسکتاہے۔
ہمارے پاکستان کے بیشتر شہر جوائنٹ فیملی سسٹم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی کے بعد بیٹا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا پسند کرتاہے۔ کوئی بھی مسئلہ یا بیماری ہوجائے تو گھر کے سارے افراد مریض کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مل کر اس کی بیماری کا علاج کرنے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ گھر کا کوئی فرد اگر ذہنی ڈپریشن کا شکار ہے تو بجائے معالج کے پاس جانے کے اسے ایک پاگل پن قرار دیا جاتاہے اور مریض کو اپنی جنگ خود لڑنا پڑتی ہے۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہوتا اور اندر ہی اندر گھر کا وہ پیارا شکست وریخت کا شکار ہوتا رہتاہے، باقی سب لوگ اپنی دنیا میں مست اور بے پرواہ رہتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم ڈپریشن کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر یہ ہے کیا اور اس سے نجات کیسے ممکن ہے ۔ پہلے تو اس کو بیماری نہیں سمجھا جاتاہے، اگر کہیں اس کی شد بدھ ہے بھی، تو اس سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہے اور اس کا شعور حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔ ہم اس کو معلوم کیوں نہیں کرنا چاہتے؟ اس کی ایک بڑی وجہ فرسودہ روایات ورسوم ہیں جو ہمارے ہاں رشتوں اور اولاد سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسے مسائل گھر میں ہی حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور گھر سے باہر ان مسائل کا سامنے آنا عزت کا مسئلہ گردانا جاتاہے۔ ایک عام سے وجہ یہ بھی ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے"۔
سب سے پہلے ڈپریشن کی حقیقت جانتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں مبتلی بہ اپنے آپ کو ناکام، تنہا اور اداس خیال کرتاہے۔ اتنا کچھ تو مریض کے ساتھ ہوتا ہے لیکن معاشرہ اس کو منفی رخ دے کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ مریض کو اس گھروالے سپورٹ کریں دوست احباب اس کی ڈھارس بندھائیں اور یہ باور کرائیں کہ تم ناکام نہیں ہو۔ بروقت علاج کی ازحد ضرورت ہوتی ہے ، ورنہ مریض کی ذہنی کیفیت دگرگوں صورتحال کا شکار ہوجاتی ہے جس سے نہ صرف اس کی سوشل لائف متاثر ہوتی ہے بلکہ پروفیشنلی طور پر وہ ایک بوجھ سا بن جاتاہے۔ یہ چیز اس کے کیرئیر اور زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔
انہی منفی خیالات میں کھوکر مریض اندر سے کھوکھلا ہوجاتاہے۔ مسلسل خوف اور اندیشوں میں گھرا مریض جمود کا شکار ہوجاتاہے اور یہ جمود آہستہ آہستہ اس کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے۔ اس کے سارے خواب، محبتیں اور رشتے کمزور پڑجاتے ہیں۔
ڈپریشن کا تعلق عمر کے کسی خاص حصے سے ہرگزنہیں ہے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ اٹھارہ سے تیس سال کے نوجوان اس کا جلد شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنی من پسند جاب نہ ملنا، دل میں تصورکردہ کامیابی کا حاصل نہ ہونا اور ضرورت سے زیادہ خواہشات کو دل میں پال کررکھنا اس کے نمایاں اسباب میں سے ہیں نئی نسل بلاشبہ ایک ڈیپریسڈ جنریشن کہلائی جاسکتی ہے۔ ذیل میں اس کے کچھ عوامل واسباب پر نظر ڈالتے ہیں۔
انٹرفیملی میرج اور جینیاتی مسائل بھی ڈپریشن کا باعث ثابت ہورہے ہیں۔ اگرچہ ہم آج اکیسویں صدی کے لوگ ہیں لیکن آج بھی ہمارے پڑھے لکھے خاندان ذات پات میں گھرے ہوئے ہیں اور خاندان کے باہر شادی کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ اکثر شادیاں زبردستی ہوتی ہیں کیونکہ خاندانی روایات کو برقراررکھنا اور خاندان کے باہر شادی نہ کرنا ایک ایسی روایت ہے جسے خاندان کے بزرگ کسی صورت توڑنا نہیں چاہتے۔ ایسے میں اکثر میاں بیوی غیر ہم آہنگی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور ان کے بچے شروع ہی سے تنائومیں گھر جاتے ہیں۔
میاں بیوی کی ناچاقی ہو تو بچوں کا نفسیاتی مریض بن جانا ایک فطری امر ہے، جس کی تمام تر ذمہ والدین پر ہوتی ہے جو آپسی اختلاف حل کرنے کے بجائے ان میں الجھتے چلے جاتے ہیں۔ بچے یہ مسائل دیکھ کر رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں اور بعد میں چڑچڑاپن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کی تعلیم پوری ہوتی ہے، اور پھر اس طرح دوران ملازمت بھی وہ ذہنی پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔
معاشی مسائل ڈپریشن کے مرض کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں نوجوان خبط کا شکار ہیں۔ شہروں میں آبادی بڑھ رہی ہے اور پرتعیش لائف سٹائل کی ہوس نوجوانوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اپنا خودساختہ سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے ہرحلال اور حرام ، جائز وناجاجز طریقہ اپنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ نہ صرف یہ کہ ہمارا سماجی نظام زوال پذیر ہے، بلکہ خونی رشتے بھی خود غرضی اور مفاد پرستی کے بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں۔
کچھ لوگ حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، چھوٹی باتوں کو دل پر لے لیتے ہیں، ان کا ڈپریشن میں مبتلا ہونا قرین قیاس ہے۔ بے روزگاری اور دفاتر میں سینئرز کی ڈانٹ ڈپت نوجوانوں میں احساس کمتری پیدا کررہی ہے جس کا نتیجہ ڈپریشن اور ذہنی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق سو میں دس افراد ذہنی امراض کے معالجین کے پاس زیر علاج ہیں۔ سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے، گزشتہ دس پندرہ سالوں میں ٹیکلنالوجی کے میدان میں وہ پیش رفت ہوئی جو پچھلے دوسوسالوں میں نہیں ہوئی۔ ایسے میں نظام زندگی ظاہری لحاظ سے بہت بہتر ہوا ہے لیکن اس کے نقصانات بھی اظہر من الشمس ہیں۔ سماجی اور معاشرتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
آج کی نوجوان نسل اور اس کے والدین میں دوریاں بڑھنے کی ایک وجہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہے۔ بچے ایک کلک پر یا موبائل کی ایپ پر ہر چیز کا حصول چاہتے ہیں، اپنے مقصد کو پانے کے لیے انتظار کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔ جبکہ والدین اپنے پرانی روایات چھوڑنے پر تیار نہیں۔ نہ توالدین خود کو بدلنے پر اور اولاد کے موافق اپنا مزاج ڈھالنے پر راضی ہیں، اور نہ اولاد والدین کے رجحانات واحساسات کو سممجھنے کی زحمت گواراہ کرتی ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر گھر سے ایک باغی ذہن کا حامل بچہ پیدا ہورہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں