جمعہ، 2 جولائی، 2021

چیونٹی کی زندگی سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں

 چیونٹی کی زندگی سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں

چیونٹی دنیا کے ہر کونے میں پائی جاتی ہے اور بظاہرنظر آنےمیں یہ ایک عام سی مخلوق ہے۔ اس کا تعلق حشرات الارض کے خاندان سے ہے، جس کو ہم انسان کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ لگ بھگ بارہ ہزار اقسام پر مشتمل یہ مخلوق اپنے اندر حیرت انگیز عجائبات رکھتی ہے۔ دکھنے میں ایک ننھی سی جان اپنے اندر کئی اسباق پوشیدہ رکھتی ہے جن کو سیکھ کر ہم کامیابی کے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

آپ نے ضرور چیونٹیوں کی لمبی قطاریں دیکھی ہونگی۔ ان کی اس صف بندی کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مخلوق کس قدر نظم ونسق کی پابند ہے۔ ایک منظم معاشرہ کی طرف اس سے ایک اشارہ ملتا ہے۔ انسان نے اگرچہ چیونٹی سے کچھ اور نہ سیکھا ہو لیکن صف بندی اور حسن انتظام ضرور چیونٹی سے سیکھاہوگا۔ ایک بات جو یاد رکھنا ہم ضروری نہیں سمجھتے وہ یہ ہے کہ نظم ونسق کا تعلق عمر کے کسی خاص حصے سے نہیں، بلکہ یہ ساری عمر عمل پیرا ہونے والا کام ہے۔

ایک اور خصوصیت جو چیونٹیوں میں نظر آتی ہے، وہ اپنے ہم جنس افراد کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ میں چیونٹیوں کا ذکر ملتا ہے۔ جب فوج آتی ہے تو کیسے چیونٹیوں کی رانی اپنے تمام برادری کے افراد کو کہتی ہے چلو سب اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو، کہیں ایسا نہ ہو سلیمان اور اس کا لشکر تم کو روند ڈالے اور ان کو پتہ بھی نہ چلے۔ اس میں سبق ہے ہم انسانوں کو اپنے اندر خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ صرف اپنے مفاد کے لیے سوچنا اور صرف اپنے حق کی بات کرنا اعلی ظرفی نہیں ہے۔ اپنے معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق کا خیال اعلی روایات کی نشانی ہے۔  آج بھی چیونٹیوں کے حالات پر غور کریں تو تیز ہوا کے جھونکے کے وقت چیونٹی اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی یہ اعلان کراکے جاتی ہے کہ سنبھل جائواور اپنی اپنی حفاظت کا سامان کرلو۔

چیونٹی معاشرے کے افراد کو، جو کسی امیر کے تحت ہوں، اطاعت اور فرمانبرداری کا سبق بھی سکھاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر جب آرہا تھا اور رانی چیونٹی جب اپنے ماتحت دیگر چیونٹیوں کو بلوں میں جانے کا حکم دے رہی تھی، تو سب نے کہا مانا۔ کسی نے چوں چرا نہ کی، اور بغیر حیل وحجت کے اپنے اپنے بلوں میں چلی گئیں۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ امیر جب کوئی حکم کرے تو اس کے سامنے روگردانی نہ کرنی چاہیے بلکہ فورا اس کا حکم مان لینا چاہیے۔ نیز اس سے اشارہ ملتا ہے جب کوئی قوم اپنے امیر کی بات نہیں مانتی تو ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور وہ کسی نہ کسی دن فوج کے پائوں تلے روند دی جاتی ہے۔

چیونٹیوں سے ہمیں نظم ونسق کے علاوہ بودوباش کے طریقے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ جدید سائنس کے مطابق ان کی رہائشی کالونیاں ہوتی ہیں اور ان کالونیوں میں سہولیات اور آسائش کا بھی پورا سامان کیا جاتا ہے تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ اسی طرز عمل کو اپناتے ہوئے انسانوں کو سبق ملتا ہے کہ رہائش میں جدید سائنسی طریقے اپنائیں جس سے مکینوں کی راحت کا مکمل سامان ہو۔ اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات رکھیں اور کسی کو زبانی یا جسمانی تکلیف دینے سے مکمل گریز کریں۔ اللہ تعالی ہمیں منظم طرز معاشرت اور دوسروں کا احترام کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

منگل، 29 جون، 2021

حقوق العباد اور حسن معاشرت کی اہمیت

 حقوق العباد اور حسن معاشرت کی اہمیت

اسلام کی عمارت کئی اصولو ں پر استوار ہے جس میں سے ایک اہم ستون معاشرت ہے۔ اسلام میں اس پر تاکید کی گئی ہے اور اس کی وجہ سے اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے اور معاشرت کا تعلق بھی حقوق العباد سے ہے۔ معاشرت کی اگر جامع مانع تعریف کی جائے تو کچھ اس طرح بنتی ہے کہ اجتماعی زندگی میں رشتہ داروں سے حس سلوک ہو اپنے ساتھ کے لوگوں کے مزاج اور عادت کے مطابق برتائو کیا جائے، اور ہر ایک سے نباہ کرنے کے طریقے معلوم کرکے ان پر عمل پیرا ہوا جائے۔

آج ہماری صورتحال اس کے برعکس ہے۔ معاشرت کی درج بالا تعریف کے مطابق شاذ ونادر ہی اس پر کوئی عمل پیرا ہوگا۔ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا ہم سب کا اولین فریضہ سمجھا جاتاہے۔ دوسروں کے حقوق کی پامالی اور زبردستی ہر چیز پر اپنا حق جتانا بہادری کی علامت سمجھا جاتاہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلمیات سے ناواقف وغافل ہیں۔

آئے روز طلاقوں کی بڑھتی شرح پریشان کن ہے اور اس کا محرک بھی حقوق کی پامالی اور اپنے حقوق کے حصول کی کوشش ہے۔ والدین کو اگر دیکھا جائے تو وہ بھی اپنی اولاد کی تربیت سے غٖافل ہیں۔ والدین کو اگر کوئی فکر لاحق ہے تو وہ بس اتنی کہ بچوں کا مستقبل سنور جائے، وہ دنیامیں کسی کے محتاج نہ رہیں، اچھی تعلیم حاصل کرلیں اچھی سی نوکری یا اچھا کاروبار شروع کرلیں۔

والدین کو یہ فکر نہیں کہ ہمارے بچے معاشرت کیسےسیکھیں، لوگوں سے سلوک کیسے رکھیں۔ معاشرت انتہائی اہم ہے اس وجہ سے قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اس پر زور دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کےگھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو۔ اس طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہے جب تمہیں کہا جائے مجالس میں کشادگی پیدا کرو، تو مجالس میں وسعت اور کشادگی پیدا کرو۔ یہ آیات دلالت کرتی ہیں کہ دوسروں کا حقوق کا خیال کتنا ضروری ہے۔ مجلس میں کشادگی اور دوسروں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانا جب اتنا اہم ہے تو اندازہ کیا جاسکتاہے کہ دوسروں کے ضروری حقوق کا خیال رکھنا کتنا اہم ہوگا۔

ایک حدیث مبارکہ ہے کہ مہمان کو چاہیے میزبان کے پاس اتنا قیام کرے کہ وہ تنگ نہ ہوجائے۔ اس حدیث میں مہمان کو میزبان کا خیال رکھنے کا امر کیا گیا ہے۔ مریض کی عیادت اچھی بات ہے لیکن اسلام یہاں بھی زور دیتا ہے کہ مریض کے پاس زیادہ نہ بیٹھا جائے تاکہ وہ تنگ دل نہ ہو۔ صرف دل پر بوجھ اور تنگی کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ مریض کے پاس زیدہ دیر بیٹھنے کو منع کیا گیا۔

درج بالا آیات واحادیث ہمیں واضح پیغام دیتی ہیں ک جس طرح وقت پر عبادت کرنا اہم ہے، اس طرح اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی اہم ہے۔ درس نظامی کی فقہ کی کتابوں میں عبادات کا حصہ ایک چوتھائی ہے، جبکہ معاملات تقریبا تین حصوں میں بیان کیے گئے جس سے معاشرت اور حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتاہے۔ اللہ تعالی ہمیں حقوق العباد کی رعایت کی توفیق عطافرمائے۔ 

پیر، 28 جون، 2021

والدین کا مقام ومرتبہ کیا ہے؟ اطاعت کن باتوں میں کرنی چاہیے

 والدین کی قدر کیجئے

قدرت نے انسان کو والدین کی شکل میں وہ انمول تحفہ اور عظیم نعمت عطاکی ہے جس کا اس دنیا میں کوئی ثانی اور کوئی نعم البدل نہیں۔ دیگر رشتہ دار جتنے بھی خیر خواہ ہوجائیں والدین کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ والدین کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اگر آپ کی خیرخواہی کرتاہے تو ہوسکتا ہے اس کاکوئی مفاد وابستہ ہو۔ لیکن والدین ایسی شخصیت ہوتے ہیں جو بلاغرض وبلامطلب اپنے بچوں پر جان بھی قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں اور بدلے میں کچھ بھی نہیں چاہتے۔

اسلام میں والدین کی عظمت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، جگہ جگہ والدین کی خدمت اور اطاعت کی تلقین کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین کی جتنی بھی خدمت کی جائے کم ہے۔ والدین کا حق اس دنیا میں ادا ہونا ممکن نہیں۔ کم از کم اتنا تو ہوسکتا ہے کہ بچے اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کریں، ان سے نرمی سے پیش آئیں، ان کی راحت کا خیال کریں۔

والدین اگر سخت بات کریں تو اس کے پیچھے اپنی بچوں کی خیرخواہی مضمر ہوتی ہے، لہذا ان کی کڑوی کسیلی باتوں کا جواب ہمیشہ نرمی سے دیں۔ وہ اگر بات کررہے ہوں تو ان کی باتوں کو کاٹنا بے ادبی ہے۔ والدین کےسامنے موبائل فون کااستعمال بھی بے تہذیبی ہے۔ وہ اگر آپ سے بات کررہے ہیں تو ان کے سامنے کال کرنا یا کال سننا بھی مناسب نہیں۔

ماں اور باپ کی عزت یکساں کرنی چاہیے لیکن چند امور ایسے ہیں جن میں والدہ کا مقام ومرتبہ باپ سے زیادہ ہوتاہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے ایک صحابی نے دریافت کیا میرے حسن سلوک سب سے زیادہ مستحق کون ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس صحابی نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون، فرمایا تمہارا باپ۔ اس سے معلوم ہوا خدمت میں استحقاق ماں کا زیادہ ہے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہے اور دیکھ بھال کی زیادہ محتاج ہوتی ہے۔

 ہاں ادب میں اور عزت واحترام میں باپ کا مقام ومرتبہ اعلی ہے کیونکہ باپ سے اس قدر انسان بے تکلف نہیں ہوتا جتنا ماں سے ہوتاہے۔ لہذا ادب کا لحاظ بھی باپ کے لیے زیادہ ہونا چاہیے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ والدین کی اطاعت صرف جائز اور نیکی کے کاموں میں ہے۔ خدانخواستہ اگر وہ گناہ کا حکم کریں، چوری یا کسی کی حق تلفی کا حکم کریں تو اس سلسلے میں ان سے معذرت کرلینی چاہیے اور ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ ارشاد ہے لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ کہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں۔ قرآن پاک کی رو سے معلوم ہوتاہے کہ والدین اگر غیر مسلم ہوں توشرک اور کفر میں ان کی بات ہرگز نہ مانی جائے، البتہ دنیاوی معاملات میں ان سے حسن سلوک اب بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو والدین کا فرمانبردار بنائے

ہفتہ، 26 جون، 2021

نوجوان نسل کی بے راہ روی کے اسباب اور ان کا علاج

 نوجوان نسل کے براہ روی کے اسباب

کسی بھی سماج اور معاشرے میں نوجوان اہم ہوتے ہیں اور ان کو ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتاہے۔ قوم وملک کی فلاح وبہبود میں نوجوان نسل کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ عمررسیدہ اور بچوں کی نسبت نوجوان نسل کاوجود اہمیت رکھتا ہے۔ یہی نوجوان اگر اپنا کردار نبھانے کے بجائے لایعنی کاموں میں مشغول ہوجائیں یا خواب غفلت کا شکار ہوجائیں تو قوم ترقی کے بجائے زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔

سماج میں اصلاح اور نیکی کے بجائے برائی کی جڑیں پھیلنے لگتی ہیں بے حیائی اور فحاشی اپنا راستہ نکال لیتی ہے اور زندگی اجیرن سی ہوجاتی ہے۔ یہ باتیں کوئی تخیلاتی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں کھلی آنکھوں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مغربی ممالک کو دیکھ لیجئے، وہاں اخلاقی پستی کا اگر دور دورہ ہے تو نوجوانوں کی بدولت ہی ہے۔

شہوت پسند لوگ بجائے اس کے کہ کوئی مثبت اور تعمیری کام کریں، اسی ہوس پرستی کی تکمیل کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کا یہی مقصد ہے کہ نوجوان نسل تخریبی کاموں میں ملوث ہوجائے۔ آج کل جبکہ انٹرنیٹ عام ہے، تخریبی ذہن کے لوگوں کا کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ ذہنی صلاحیتوں کو مائوف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا جہاں علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور علم میں اضافے کا ایک بہترین سبب ہے وہاں بے راہ روی اور اباحت پسندی کو کافی حد تک پروان چڑھا رہا ہے۔

بے جا لہوولعب اور فضول خرچی کا ایک اہم سامان ہے۔ ایسے حالات میں والدین اور خود نوجوان نسل کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقل بروئے کار لا کر خود کو سنبھالیں۔ ہر جگہ سے صدائے حق بلند ہوگی تو ہم سوشل میڈیا کے سائڈ افیکٹس کا بخوبی مقابلہ کرسکیں گے۔ انٹرنیٹ کا استعمال ضروری ہے لیکن اس کی حدوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ دو دھاری تلوار ہیں جن سے بیک وقت فائدہ بھی اٹھایا جاسکتاہے اور یہ غیر معمولی نقصان کا بھی باعث ہیں۔

اصلاح پسند حضرات اور دیندار رہنمائوں کا فرض ہے کہ خاموشی کے بجائے نوجوانوں کی تربیت کریں۔ زبان وبیان ہو یاقلم ہو، ہر پلیٹ فارم سے اور ہر ذریعہ سے نوجوانوں کی اصلاح ضروری ہے تاکہ وہ بے راہ روی کی دلدل سے نکل سکیں ۔

بے راہ روی کا سبب جہاں سوشل میڈیا ہے وہاں کچھ وڈیو گیمز بھی ہیں جو عریانیت کو پروان چڑھا رہے ہیں نیز ان میں غیر اسلامی شقیں بھی وافر مقدار میں ہیں جوکہ ایک مسلمان کے ایمان کے منافی ہیں۔ یہ ایک شاطرانہ چال ہے جو کہ حیرت انگیز طور پر مسلمان نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور وہ لاشعوری طور پر اس کا شکار ہورہے ہیں۔

یہ بے حسی ہے کہ اپنے سامنے اس طرح کی خرافات ہوتے ہوئے ہم سب خاموش ہوجاتے ہیں اور اپنے حصے کا فرض ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد پاک ہے خیرالناس من ینفع الناس۔ بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ اس حدیث کی رو سے ہم سب کا فرض ہے لوگوں کی بہتری کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں،اللہ تعالی ہماری نوجوان نسل کو خیر کے کاموں کی توفیق عطافرمائے۔ 

جمعہ، 25 جون، 2021

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ اسباب اور بچنے کا طریقہ

 لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں

خود کشی کرنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے جو اکثر وبیشتر ہمارے کانوں میں پڑتا رہتاہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے ہمارے عزیزوں، رشتہ داروں، اور دوستوں میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتاہے جو زندگی میں ایک دوبار خودکشی کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔

خوش قسمتی سے ایسی کوشش کرنے والے کبھی بچ جاتے ہیں لیکن اکثریت اس کوشش میں کامیاب ہوجاتی ہے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ہر جان سے جانے والا اپنے پیچھے یہ سوال ذھنوں میں چھوڑ جاتاہے کہ آخر اس نے یہ انتہائی اقدام کیوں کیا۔ لواحقین توجیتے جی مرجاتے ہیں، لیکن دوسرے لوگ تبصروں اور تجزیوں میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں کہ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک جیتا جاگتا انسان یوں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ کیا وہ زندگی سے مایوس ہوچکا تھا؟ کیا اس کے سامنے زندہ رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں بچی تھی؟

خودکشی کرنے والے صرف غریب ونادار ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جنہیں زندگی کی تمام رعنائیاں اور آسائشیں میسر ہوتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خود کشی سے جو غریب اور ناداری کا تعلق جوڑا جاتا ہے وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ ضروری نہیں انسان تنگدستی کے ہاتھوں یہ انتہائی اقدام اٹھائے۔ زیادہ تر قیاس آرائیاں یہی کی جاتی ہیں کہ مرنے والے کوکوئی خاص مصیبت یا پریشانی لاحق تھی، اور وہ دوسروں کو بتانا بھی نہیں چاہتا تھا لہذا اس نے پریشانی سے بچنے کے لیے یہ حل نکالا۔ حالانکہ محققین خود کشی کے اس سبب کو کلی طور پر ماننے  لیے تیار نہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا تیس کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، اور ڈپریشن بھی اقدام خودکسی کا ایک اہم محرک ثابت ہوا ہے۔ اس وقت دنیا میں آٹھ سے دس لاکھ افراد ہر سال خود کشی کرتے ہیں اور اکثر خودکشی سے قبل اس فیصلے سے آگاہ بھی نہیں کرتے تاکہ سدباب کی کوئی صورت نکالی جاسکے۔ منجلہ دیگر وجوہات کے کچھ سیاسی اور معاشی حالات بھی انسان کو خود کشی پر مجبور کرتے ہیں۔

خود کشی کے واقعات کی گہرائی میں جائیں تو ایک چیز واضح نظر آتی ہے کہ ہم لوگوں میں برداشت کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ معمولی سی رنجش ہوجائے یا اپنا مطالبہ پورا نہ ہوپائے تو ہم زندگی کے خاتمے کا سوچنے لگنے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس حوالے سے والدین اور بزرگ اپنے بچوں کی ذہن سازی کریں اور انہیں سمجھائیں کہ اس دنیا میں ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں اور نہ ہرضرورت کی پورا ہونے کی امید لگانی چاہیے۔ اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوکر انسان نفسیاتی مسائل سے بچ سکتاہے جو انسان کو رفتہ رفتہ خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔

اسلام میں خود کشی ممنوع ہے اس کو سنگین جرم اور باعث عذاب قرار دیا گیا ہے۔ انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں ہے لہذا اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا بھی انسان کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ زندگی اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت ہے لہذا زندگی کے احکام میں بھی اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرنی ضروری ہے۔

Earn money online through your mobile